(آیت 14) ➊ قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ: ”رَجَا يَرْجُوْ رَجَاءً “(ن) کا معنی امید کرنا ہے۔ اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کر لیے جاتے ہیں۔
➋ ” اَيَّامَ اللّٰهِ “(اللہ کے دنوں) سے مراد کسی قوم کے یادگار تاریخی دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے، یا اپنے فرماں بردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ایک ہی دن کچھ لوگوں کے لیے سزا اور کچھ لوگوں کے لیے عطا کا دن ہوتا ہے، جیسے آلِ فرعون کا غرق ہونا ان کے لیے سزا کا دن تھا اور بنی اسرائیل کے لیے نجات کا۔ صحیح مسلم میں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی لمبی حدیث ہے، جس کے شروع میں ہے: [ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُوْلُ إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوْسٰی عَلَيْهِ السَّلَامُ فِيْ قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللّٰهِ، وَأَيَّامُ اللّٰهِ نَعْمَاؤُهُ وَ بَلَاؤُهُ ][ مسلم، الفضائل، باب من فضائل الخضر صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۷۲ /۲۳۸۰ ]”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں انھیں اللہ کے ایام کے ساتھ نصیحت کر رہے تھے اور ایام اللہ سے مراد اس کی نعمتیں اور اس کی مصیبتیں ہیں۔“ لہٰذا ”جو لوگ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے“ یا ”جو لوگ اللہ کے دنوں کا خوف نہیں رکھتے“ سے مراد کفار ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بے خوف ہیں۔ مومن تو ہر وقت اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے غضب سے ڈرتے رہتے ہیں۔
➌ یعنی ایمان والوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے دنوں سے بے خوف لوگ یعنی کفار ان پر جو زیادتی کریں یا تکلیف پہنچائیں تو اس کے بدلے کی فکر کے بجائے ان سے درگزر کریں اور انھیں معاف کر دیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا تھا جب کفار کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، بعد میں جب قتال کی اجازت مل گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہے، کیونکہ زیادتی برداشت کرنے کی تلقین اب بھی باقی ہے۔ رہی اسلام کی بنا پر کفار سے جنگ، تو اس کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہی بات درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہجرت اور کفار سے لڑائی کی اجازت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا، جیسا کہ فرمایا: «لَتُبْلَوُنَّ فِيْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِيْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ» [ آل عمران: ۱۸۶ ]”یقینا تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقینا تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔“ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جا کر بھی، جب آپ کے پاس قوت و سلطنت موجود تھی، کبھی اپنی ذات پر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: [ مَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِيْ شَيْءٍ يُؤْتٰی إِلَيْهِ حَتّٰی يُنْتَهَكَ مِنْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ فَيَنْتَقِمَ لِلّٰهِ ][بخاري، الحدود، باب کم التعزیر والأدب؟: ۶۸۵۳ ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا انتقام نہیں لیا، جس کا آپ سے معاملہ کیا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو چاک کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے۔“
➍ لِيَجْزِيَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ:” قَوْمًا“ سے مراد کافر ہوں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے کہہ دے کہ ان لوگوں کی زیادتی اور اذیت رسانی کو معاف کر دیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ بجائے اس کے کہ وہ ان سے بدلا لیں خود اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کا بدلا دے جو وہ کماتے رہے تھے۔ ” قَوْمًا “ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ ”کچھ لوگوں کو“ کیا گیا ہے۔ اور اگر ” قَوْمًا “ سے مراد مومن ہوں تو مطلب ہو گا کہ ایمان والوں سے کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کی زیادتی اور تکلیف کو معاف کر دیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں اس صبر اور عفو و درگزر کا بدلا عطا فرمائے جو وہ کفار کی اذیت رسانی کے مقابلے میں کرتے رہے تھے۔