(آیت 12) ➊ اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ …: اس سے پہلی آیات میں کائنات کی تخلیق اور اس میں موجود بہت سی چیزوں کا ذکر اس لحاظ سے ہوا ہے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قیامت پر دلالت کرتی ہیں۔ یہاں سے سمندر کی تسخیر اور دوسری چیزوں کا اس لحاظ سے ذکر شروع ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، جن کا شکر اس پر واجب ہے، مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایسی ہستیوں کو اپنا داتا و دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا بنا رکھا ہے جن کا ان نعمتوں میں کوئی دخل نہیں اور اس طرح وہ یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والے کے شکر کے بجائے اس کی نعمتوں کا صاف انکار اور ناشکری کر رہے ہیں۔
➋ لفظ ” اَللّٰهُ “ مبتدا اور” الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ …“ اس کی خبر ہے، جو معرفہ ہے، اس سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمھاری خاطر سمندر کو مسخر کر رکھا ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نحل کی آیت (۱۴) کی تفسیر۔