(آیت 11،10)فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ …: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ پریشان نہ ہوں، بلکہ اس دن کا انتظار کریں جس میں آسمان کی جانب سے ایک واضح دھواں ان لوگوں کو ڈھانپ لے گا جو نہایت تکلیف دہ عذاب ہو گا۔ واضح ہونے اور ڈھانپ لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خیالی دھواں نہیں ہو گا بلکہ حقیقی ہو گا اور سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ” يَوْمَ “ سے مراد وہ وقت ہے جس میں دھواں رہا، کیونکہ وہ دھواں ایک دن تو نہیں رہا، بلکہ کئی دن اور مہینے رہا۔ اس دھویں سے کیا مراد ہے؟ ظاہر ہے اس سے قیامت کے دن کا دھواں مراد نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان آیات میں کفار کو اسے دور کرنے کی دعا کے بعد اسے کچھ دور کرنے اور ان کے دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کا ذکر ہے، جب کہ قیامت کے دن کا عذاب کسی صورت دور ہونے والا نہیں۔ اس لیے اس سے مراد ایسا دھواں ہے جو جلد ہی دنیا میں انھیں ڈھانپنے والا ہے۔ اس دھویں کے متعلق دو قول ہیں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نہایت جزم کے ساتھ اسے اس قحط کے نتیجے میں پھیلنے والا دھواں قرار دیتے ہیں جو ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے مکہ میں واقع ہوا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: [ إِنَّمَا كَانَ هٰذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِيْنَ كَسِنِيْ يُوْسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتّٰی أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَی السَّمَاءِ فَيَرٰی مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالٰی: «فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ (10) يَّغْشَى النَّاسَ هٰذَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ» قَالَ فَأُتِيَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! اسْتَسْقِ اللّٰهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ لِمُضَرَ؟ إِنَّكَ لَجَرِيْءٌ، فَاسْتَسْقٰی فَسُقُوْا فَنَزَلَتْ: «اِنَّكُمْ عَآىِٕدُوْنَ» فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوْا إِلٰی حَالِهِمْ، حِيْنَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: «يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ» قَالَ يَعْنِيْ يَوْمَ بَدْرٍ ][ بخاري، التفسیر، سورۃ الدخان: ۴۸۲۱ ]”اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قحط سالیوں کی بددعا کی، جیسے یوسف علیہ السلام کے قحط کے سال تھے۔ تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا، حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھا گئے۔ آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ (10) يَّغْشَى النَّاسَ هٰذَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ»[ الدخان: ۱۰،۱۱ ]”سو انتظار کر جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔“ تو ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا: ”یا رسول اللہ! مضر (قبیلے) کے لیے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مضر کے لیے (وہ تو سخت کافر و مشرک ہیں)؟ تو بڑا جرأت والا ہے۔“ خیر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا کر دی اور ان پر بارش ہو گئی تو یہ آیت اتری: «اِنَّكُمْ عَآىِٕدُوْنَ» [ الدخان: ۱۵ ]”بے شک تم دوبارہ وہی کچھ کرنے والے ہو۔“ پھر جب انھیں خوش حالی ملی تو وہ اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ» [ الدخان: ۱۶ ]”جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، بے شک ہم انتقام لینے والے ہیں۔“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اس سے مراد یومِ بدر ہے۔“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کو امام طبری اور بہت سے مفسرین نے راجح قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق یہ عذاب گزر چکا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا۔ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آپس میں کسی بات کا ذکر کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا تَذَاكَرُوْنَ؟ قَالُوْا نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ إِنَّهَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَ نُزُوْلَ عِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ يَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ وَ ثَلَاثَةَ خُسُوْفٍ، خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيْرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلٰی مَحْشَرِهِمْ ][مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ: ۲۹۰۱ ]”تم کس بات کا ذکر کر رہے ہو؟“ ہم نے کہا: ”ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس وقت تک قائم نہیں ہو گی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نشانیوں کا ذکر فرمایا، (جو یہ ہیں) دھواں، دجال، دابہ، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول، یاجوج و ماجوج، تین خسف (زمین میں دھنس جانا) ایک خسف مشرق میں، ایک خسف مغرب میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں اور ان سب کے آخر میں ایک آگ ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے حشر کے مقام کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا، طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا أَوِ الدُّخَانَ أَوِ الدَّجَّالَ أَوِ الدَّابَّةَ أَوْ خَاصَّةَ أَحَدِكُمْ أَوْ أَمْرَ الْعَامَّةِ ][ مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال: ۲۹۴۷ ]”چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے اعمال میں جلدی کر لو، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا دھواں یا دجال یا دابہ یا تم میں سے کسی پر انفرادی عذاب یا سب پر اجتماعی عذاب۔“
ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے کہ اس دخان سے مراد قیامت کے قریب نمودار ہونے والا دھواں ہے، جس کا ابھی انتظار ہے، مگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ہی صحیح ہے، کیونکہ آیات میں اُس دھوئیں کا ذکر ہے جو تھوڑا سا دور کیا جائے گا اور اس میں کفار کے لیے ایمان لانے کا موقع ہو گا، جب کہ قیامت کے قریب والی نشانیوں کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، جیسا کہ فرمایا: «يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْۤ اِيْمَانِهَا خَيْرًا»[ الأنعام: ۱۵۸ ]”جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔“ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات بھی بطورِ دلیل پیش فرمائی کہ بھلا قیامت کا عذاب بھی دور ہو سکتا ہے!؟