(آیت 88)وَ قِيْلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ …: ” قِيْلٌ، قَالٌ“ اور ” قَوْلٌ“ تینوں ” قَالَ يَقُوْلُ“ کے مصدر ہیں، معنی ہے کہنا۔ ” قِيْلِهٖ “ میں ضمیر ”هٖ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس آیت کی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سب سے واضح تین ہیں۔ پہلی یہ کہ ” وَ قِيْلِهٖ يٰرَبِّ “ قسم ہے: ”أَيْ أُقْسِمُ بِقَوْلِهِ يَا رَبِّ“ اور ” اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ “ جواب قسم ہے۔ یہ تفسیر زمخشری نے کی ہے اور ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رسول کے ”يَا رَبِّ يَا رَبِّ “ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ یقینا یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔ اگلی آیت میں فرمایا: «فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَ قُلْ سَلٰمٌ» اس لیے ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ ساری آیت قسم ہے، جواب اس کا محذوف ہے جو قرینے سے معلوم ہو رہا ہے۔ قرینے کے پیشِ نظر قسم کا جواب حذف کرنا کلامِ عرب میں عام ہے۔ یعنی میں رسول کے ”اے میرے رب! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں“ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور کافروں کے اس رویے کے خلاف اس کی مدد کروں گا۔ قرینہ اگلی آیت ہے کہ پس تو ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، کیونکہ وہ بہت جلد جان لیں گے کہ رسول کی مدد کیسے ہوتی ہے اور ان لوگوں سے انتقام کیسے لیا جاتا ہے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ واؤ بمعنی ”رُبَّ“ ہے جو حرف جار ہے، ” قِيْلِهٖ “ اس کے ساتھ مجرور ہے۔ یعنی کئی دفعہ رسول کا حسرت و افسوس کے ساتھ کہنا یہ ہوتا ہے کہ اے میرے رب! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں۔ ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” وَ قِيْلِهٖ “ میں ”قِيْلٌ“ کا عطف اوپر گزری ہوئی آیت ” وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ میں لفظ ” السَّاعَةِ “ پر ہے، یعنی ” وَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ عِلْمُ قِيْلِهِ يَا رَبِّ هٰؤُلَاء قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُوْنَ“ یعنی ”اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا بھی کہ اے میرے رب! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔“ مگر معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ بعید بات ہے۔