(آیت 53) فَلَوْ لَاۤ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ …: ” اَسْوِرَةٌ “”سِوَارٌ“ کی جمع ہے، کنگن۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ نہ موسیٰ علیہ السلام سونے کے کنگن پہنیں گے، نہ ان کے ساتھ فرشتے آئیں گے اور نہ ہمیں ان پر ایمان لانا پڑے گا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے بھی کفار نے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ سونے کے مکان اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کی شرط عائد کی تھی، فرمایا: «وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا (90) اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا (91) اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِيْلًا (92) اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَآءِ» [ بني إسرائیل: ۹۰ تا ۹۳ ]”اور انھوں نے کہا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان نہریں جاری کردے، خوب جاری کرنا۔ یا آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے، جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے، یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو، یا تو آسمان میں چڑھ جائے۔“ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کی دعوت ایک تھی اور سبھی کو دعوت کے سلسلے میں ایک جیسے مراحل سے گزرنا پڑا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے پیغمبروں خصوصاً موسیٰ علیہ السلام کے واقعات بار بار بیان فرمائے ہیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہو اور آپ صبر و استقامت سے کام لیں اور آپ کے زمانے کے کفار کو پہلی کافر اقوام کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر سے باز آ جائیں۔