(آیت 47)فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰيٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَضْحَكُوْنَ: ” اِذَا “ اچانک کے معنی میں ہے۔ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو خود سمجھ میں آ رہی ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے سرداروں کو رب العالمین کی توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو انھوں نے کوئی نشانی پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ جب انھوں نے ان کے سامنے ہماری عطا کردہ نشانیاں عصا اور ید بیضا پیش کیں تو بجائے اس کے کہ وہ ان پر غور و فکر کرتے اور ایمان لے آتے، فوراً ہی ان پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے لگے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے، کیونکہ قریش کے سردار بھی آپ کی پیش کردہ نشانیاں دیکھ کر مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ فرمایا: «بَلْ عَجِبْتَ وَ يَسْخَرُوْنَ (12) وَ اِذَا ذُكِّرُوْا لَا يَذْكُرُوْنَ (13) وَ اِذَا رَاَوْا اٰيَةً يَّسْتَسْخِرُوْنَ» [الصافات: ۱۲ تا ۱۴ ]”بلکہ تو نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اور جب انھیں نصیحت کی جائے وہ قبول نہیں کرتے۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو خوب مذاق اڑاتے ہیں۔“