(آیت 44) ➊ وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ: ذکر کا معنی نصیحت و یاد دہانی بھی ہے اور عز و شرف اور شہرت و ناموری بھی، یہاں دونوں مراد ہیں۔ یعنی یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے اور آپ کے لیے اور آپ کی قوم قریش اور عرب کے لیے عز و شرف کا باعث بھی ہے۔ یہ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کے اوّلین مخاطب اور سب سے پہلے عمل کرنے والے قریش اور عرب ہیں۔ جو عجمی قومیں اس پر ایمان لائیں گی ان کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے عربی زبان سیکھنا پڑے گی اور عربوں کا شاگرد بننا پڑے گا۔ قریش اور عربوں کے لیے یہ عز و شرف کیا کم ہے کہ بعد میں آنے والے تمام لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ زمین کے مشرق و مغرب ان کے جہاد کے ساتھ فتح اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خلافت ان میں رکھی جب تک انھوں نے دین کو قائم رکھا، کیونکہ قرآن شرف کا باعث اسی کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے، اس کے لیے محض عرب یا قریشی ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ ][مسلم، الطھارۃ، باب فضل الوضوء: ۲۲۳، عن أبي مالک الأشعري رضی اللہ عنہ ]”قرآن تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔“
آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ نیک نامی کی خواہش اچھی چیز ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کے طور پر نہ فرماتے اور ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے یہ دعا نہ کرتے: «وَ اجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ»[الشعراء: ۸۴ ]”اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔“
➋ وَ سَوْفَ تُسْـَٔلُوْنَ: یعنی قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنے عز و شرف کا باعث بننے والی نصیحت کی اس کتاب کی کیا قدر کی، اس پر کہاں تک عمل کیا اور اسے تمام اقوامِ عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری کہاں تک ادا کی؟