(آیت 10) ➊ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے اپنے احسانات گنوانے شروع فرمائے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ان کا قول نہیں، ورنہ الفاظ یہ ہوتے: ” اَلَّذِيْ جَعَلَ لَنَا الْأَرْضَ مَهْدًا… “”وہ جس نے ہمارے لیے زمین کو بچھونا بنا دیا.......۔“
➋ ” مَهْدًا “ کا معنی بچھونا بھی ہے اور بچے کا گہوارہ بھی، یعنی جس طرح آدمی بچھونے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے ایسے ہی تمھارے لیے اس عظیم الشان کُرے کو آرام کی جگہ بنا دیا، جو فضا میں معلق ہے، جو ایک طرف اپنے محور پر ایک ہزار (۱۰۰۰) میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہا ہے اور دوسری طرف چھیاسٹھ ہزار چھ سو (۶۶۶۰۰) میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے، جس کے پیٹ میں پتھروں تک کو پگھلا دینے والی اور شدید زلزلے پیدا کرنے والی آگ موجود ہے، جو کبھی کبھی آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اگل کر تمھیں بھی اپنے وجود سے آگاہ کرتی ہے، مگر اس کے باوجود تمھارے مالک نے پہاڑوں کے ساتھ اسے ایسا متوازن اور پرسکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر چلتے پھرتے، سوتے اور آرام کرتے ہو۔ تمھیں معمولی جھٹکا بھی نہیں لگتا اور احساس تک نہیں ہوتا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو۔ ہاں، کبھی کبھی اس کی کوئی ہلکی سی جھرجھری زلزلے کی شکل میں تمھیں آگاہ کرتی ہے کہ کتنی خوفناک بلا کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تابع فرمان کر رکھا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ حجر (۱۹)، رعد (۳) اور سورۂ نحل (۱۵)۔
➌ وَ جَعَلَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ: اللہ تعالیٰ نے یہاں زمین میں راستے بنانے کو اپنا احسان قرار دیا۔ پہاڑوں کے اندر درّے اور میدانوں اور پہاڑوں میں دریاؤں کے کنارے وہ قدرتی راستے ہیں جن کی مدد سے انسان ساری زمین پر پھیلا ہے اور ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ صحراؤں اور میدانوں میں امتیازی نشانات آدمی کو راستے مقرر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر پہاڑ ٹھوس دیوار کی شکل میں ہوتے یا میدانوں اور صحراؤں میں راستوں کی علامات نہ ہوتیں تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا وہیں مقید ہو کر رہ جاتا۔ مزید دیکھیے سورۂ نحل (۱۵، ۱۶)۔