(آیت 8) ➊ فَاَهْلَكْنَاۤ اَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا: یعنی ان کفار مکہ کی کیا حیثیت ہے، جو لوگ قوت اور گرفت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ہم نے انھیں ہلاک کر دیا۔ اگر یہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو انھیں بھی اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔ ” اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِيْنَ “ میں جن قریشِ مکہ کو مخاطب کیا تھا اب ” اَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا “ میں ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ ہے، یہ التفات ہے، مقصود ناراضی کا اظہار ہے۔
➋ وَ مَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ: یعنی قرآن میں ایسے پہلے لوگوں کی مثال گزر چکی ہے۔ ” مَثَلُ “ کا معنی صفت اور حال بھی ہوتا ہے، یعنی پہلے لوگوں کا حال گزر چکا ہے، جیسے قومِ نوح اور عاد و ثمود وغیرہ۔ ”مَضٰي يَمْضِيْ“ کا معنی ہے جاری ہونا، یعنی پہلے لوگوں کی مثال چل پڑی اور ان کے قصے مشہور ہو گئے، جنھیں لوگ نسل در نسل بیان کرتے چلے آئے۔