(آیت 5) ➊ اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا: ”ضَرَبَ“ کا صلہ جب ”عَنْ“ آئے تو اس کا معنی ”صَرَفَ عَنْهُ“(پھرنا، اعراض کرنا) آتا ہے۔ ” صَفْحًا “”صَفَحَ عَنْهُ“ کا مصدر ہے، اس کا معنی بھی اعراض کرنا ہے۔ اب ” اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا “ کی کئی ترکیبیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ مصدر مفعول مطلق ہے تاکید کے لیے، کیونکہ ” اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمْ “ کا معنی بھی اعراض کرنا ہے اور” صَفْحًا “ کا بھی یہی معنی ہے۔ گویا یہ مصدر مفعول مطلق فعل کے ہم معنی لفظ کے ساتھ ہے، جیسے ”قَعَدْتُ جُلُوْسًا“ ہے۔ معنی یہ ہو گا کہ ”کیا ہم یہ نصیحت تم سے ہٹا لیں، بالکل ہٹا لینا؟“ اور ایک یہ کہ ” صَفْحًا “ مفعول لہ یا حال ہے، یعنی ”کیا ہم تم سے یہ نصیحت اپنے اعراض کی وجہ سے یا اعراض کرتے ہوئے ہٹا لیں؟“
➋ اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِيْنَ: ” اَنْ “ سے پہلے لام جارہ محذوف ہے اور ” كُنْتُمْ “ میں استمرار ہے: ”أَيْ لِأَنْ كُنْتُمْ“”اس لیے کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ چلے آئے ہو۔“ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اتنا بلند مرتبہ قرآن تمھاری زبان میں تمھارے سمجھانے کے لیے نازل کیا، مگر تم زیادتی اور اسراف پر ڈٹے رہے اور مسلسل انکار کرتے رہے، تو کیا تمھارے اس مسلسل اسراف و انکار کی وجہ سے ہم اعراض کرتے ہوئے تم سے اس نصیحت کو ہٹا لیں اور تمھیں سمجھانا چھوڑ دیں؟ یعنی ہم ایسا نہیں کریں گے اور نہ یہ ہماری رحمت کا تقاضا ہے، کیونکہ تمھارا اسراف اور گمراہی تو قرآن اتارے جانے کا اصل سبب ہے۔ چنانچہ ان کے انکار کے باوجود قرآن تیئیس برس تک اترتا رہا، بے شمار سعید روحیں اس پر ایمان لائیں اور جو کفر پر ڈٹے رہے ان پر حجت قائم ہو گئی اور ان کی پشتوں سے بھی لا تعداد لوگ اسلام کے حلقۂ گوش بنے۔