(آیت 52) ➊ وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا: ” رُوْحًا “ سے مراد وحی ہے، خواہ قرآن کی صورت میں ہو یا سنت کی صورت میں، کیونکہ وہ دونوں وحی ہیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (3) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى» [ النجم: 4،3 ]”اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔“ اسے ”روح“ اس لیے کہا گیا ہے کہ حقیقی زندگی اسی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے، دل کی زندگی بھی اور آخرت کی زندگی بھی، جیسے فرمایا: «يُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ» [ النحل: ۲ ]”وہ فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے حکم سے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔“
➋ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ: اس فرمان میں ایک تو نعمت کی یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ علم عطا فرمایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ دوسرا یہ آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل ہے کہ اُمی ہونے اور کتاب و ایمان کا علم نہ رکھنے کے باوجود آپ کا قرآن کریم جیسی عظیم کتاب لانا محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کی وحی ہی کے ذریعے سے ہو سکتا ہے۔
➌ یہاں ایک سوال ہے کہ اس بات میں تو کوئی اشکال نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے کتاب کا علم نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ آپ کو ایمان کا علم بھی نہیں تھا، کیونکہ انبیاء علیھم السلام کا نبوت ملنے سے پہلے کم از کم اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت پر ایمان تو ہوتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غارِ حرا میں جا کر عبادت کرنے کا ذکر موجود ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ آپ ہی نہیں سارے عرب اُمی ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ وہی زمین و آسمان کا خالق ہے اور پوری کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے، مگر وہ شرک کی بیماری میں مبتلا تھے۔ انبیاء کی فطرت نہایت سلیم ہوتی ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اللہ پر ایمان تھا۔ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک یا کبائر کا ارتکاب نہیں ہوا، مگر یہ ایمان اجمالی تھا۔ تفصیل کے ساتھ ایمان جو حدیث جبریل کے مطابق اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یومِ آخرت اور تقدیر پر ایمان کا نام ہے، اس کی تفصیلات آپ کو وحی کے بعد ہی معلوم ہوئیں۔ اس کے علاوہ جب لفظ ایمان اکیلا بولا جائے تو اس میں تصدیق، قول اور عمل تینوں چیزیں شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ وفد عبد القیس کی مشہور حدیث میں ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۴۳): «وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ» میں نماز کو ایمان قرار دیا اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلإِْيْمَانُ بِضْعٌ وَ سَبْعُوْنَ أَوْ بِضْعٌ وَ سِتُّوْنَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِيْقِ ][ مسلم، الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان…: ۳۵ ]”ایمان کی ستر(۷۰) یا (فرمایا) ساٹھ (۶۰) سے زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ”لا الٰہ الا اللہ“ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا ہے۔“ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز، زکوٰۃ، حج اور دوسری ایمانیات کی تفصیلات وحیٔ الٰہی سے پہلے نہیں جانتے تھے۔
➍ یہاں جو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو نہیں جانتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی اور کتاب اللہ کے ذریعے سے آپ کو ہدایت کا نور عظیم عطا فرمایا، یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے، جیسے فرمایا: «وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ» [ النساء: ۱۱۳ ]”اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا۔ “ اور فرمایا: «وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ»[ یوسف: ۳ ]”اور بے شک تو اس سے پہلے یقینا بے خبروں سے تھا۔“ اور فرمایا: «وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ» [ العنکبوت: ۴۸ ]”اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔ “ اور فرمایا: «وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ يُّلْقٰۤى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ» [ القصص: ۸۶ ]”اور تو امید نہ رکھتا تھا کہ تیری طرف کتاب نازل کی جائے گی مگرتیرے رب کی طرف سے رحمت کی وجہ سے (یہ نازل ہوئی)۔ “ اور فرمایا: «تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا» [ ھود: ۴۹ ]”یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔“ ان آیات کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
➎ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا:” نُوْرًا “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے اور ” جَعَلْنٰهُ “ میں ” هُ “ ضمیر وحیٔ الٰہی کی طرف جا رہی ہے، جس کا ذکر ” رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا “ میں ہے۔ یعنی ہم نے اس وحی کو جو قرآن اور سنت کی صورت میں ہے، عظیم نور بنا دیا۔ نور اس لیے فرمایا کہ اس کے ساتھ حق روشن ہوتا ہے اور جہالت، شک اور شرک کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔
➏ نَهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا: یعنی ہم نے اس وحی کو ایسا نور بنایا جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو متعدد مقامات پر نورِ ہدایت قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۷۴)، اعراف (۱۵۷)، مائدہ (۱۵، ۱۶) اور سورۂ تغابن(۸)۔
➐ وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ: ہدایت اور صراطِ مستقیم کی تفسیر کے لیے سورۂ فاتحہ کا مطالعہ فرمائیں۔