(آیت 45) ➊ وَ تَرٰىهُمْ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا خٰشِعِيْنَ مِنَ الذُّلِّ يَنْظُرُوْنَ …: آگ پر حاضری کے وقت ان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ وہ ذلت سے سر جھکائے ہوئے چھپی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں گے، جیسے کسی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تلوار سے مارنے لگیں تو وہ ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیتا ہے، پھر کبھی کبھی تھوڑی سی آنکھ کھول کر دیکھتا ہے کہ تلوار کب اس پر گرتی ہے۔ خوف کے مارے پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔
➋ وَ قَالَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ …: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ زمر کی آیت (۱۵) کی تفسیر۔
➌ اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ فِيْ عَذَابٍ مُّقِيْمٍ: یہ ایمان والوں کے کلام کا آخری حصہ بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی۔ دائمی عذاب میں رہنے والے ظالم کافر و مشرک ہی ہیں، فرمایا: «اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ» [ المائدۃ: ۷۲ ]”بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے سو یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔“