(آیت 44) ➊ وَ مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ وَّلِيٍّ مِّنْۢ بَعْدِهٖ: یعنی جس شخص کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہو کہ نہ وہ عفو و درگزر کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور نہ کم از کم عدل و انصاف سے کام لینے پر تیار ہو تو ظاہر ہے کہ وہ خیر سے محروم اور محض شر ہے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی خیر کی توفیق نہیں دیتا، بلکہ گمراہی میں دھکیل دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پھر اس کا کوئی مددگار نہیں جو اسے ہدایت پر لے آئے۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۸، ۱۸۶) اور سورۂ کہف (۱۷)۔
➋ وَ تَرَى الظّٰلِمِيْنَ: اور تو ان ظالموں کو دیکھے گا جو عذاب دیکھنے سے پہلے ظلم و فساد اور زمین میں سرکشی سے باز آنے پر کسی طرح تیار نہیں تھے، اس لیے یہ ظالم نہ اپنے مالک کی گرفت سے ڈرتے تھے اور نہ انھیں حساب کتاب کا کوئی خوف تھا۔ ” الظّٰلِمِيْنَ “ سے مراد یہاں کفار و مشرکین ہیں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں انھی کے لیے یہ لفظ آتا ہے۔ یہاں اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ آگے ان کے متعلق فرمایا: «اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ فِيْ عَذَابٍ مُّقِيْمٍ» [ الشورٰی: ۴۵ ]”سن لو! بے شک ظالم لوگ ہمیشہ رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔“ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ دائمی عذاب کفار و مشرکین ہی کو ہو گا۔ دوسری دلیل یہ کہ ان کے قول کے مقابلے میں مومنون کا قول ذکر فرمایا: «وَ قَالَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ»[ الشورٰی: ۴۵ ]”اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کہیں گے اصل خسارے والے تو وہ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں گنوا دیا۔“
➌ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ …: وہی متکبر اور ظالم لوگ جو پہلے نہ رب تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور نہ اس کے عذاب یا حساب کتاب سے ڈرتے تھے، جب عذاب دیکھیں گے تو ان کی ساری اکڑ ختم ہو جائے گی اور کہیں گے، کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے کہ ہم دنیا میں جا کر اپنی کوتاہی کی تلافی کر لیں؟ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۲۷، ۲۸) اور سورۂ اعراف (۵۳)۔