(آیت 40) ➊ وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا: سرکشی کرنے والوں سے انتقام کا ذکر مدح کے انداز میں کرنے پر خطرہ تھا کہ انتقام میں حد سے تجاوز نہ ہو جائے، اس لیے اس آیت میں کئی طرح سے زیادتی سے باز رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ سب سے پہلے تو یہ کہہ کر کہ ” جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ “(برائی کا بدلا برائی ہے) حالانکہ بدلا تو برائی نہیں، مگر دونوں کی صورت ایک ہونے کی وجہ سے بدلے پر بھی ” سَيِّئَةٌ “ کا لفظ بولا۔ پھر یہ پابندی لگائی کہ انتقام زیادتی کے عین برابر ہو، اس سے زیادہ نہ ہو، جیسا کہ فرمایا: «فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ» [ البقرۃ: ۱۹۴ ]”پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔“ اور فرمایا: «وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ» [ النحل: ۱۲۶ ]”اور اگر تم بدلا لو تو اتنا ہی بدلا لو جتنی تمھیں تکلیف دی گئی ہے۔“
➋ ” وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا “ سے جو احکام حاصل ہوتے ہیں ان میں سے چند کے لیے دیکھیے سورۂ نحل کی آیت (۲۶) کی تفسیر۔
➌ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ: ظاہر ہے انتقام لیتے ہوئے اس زیادتی سے ذرّہ برابر اضافہ نہ ہونے دینا جو کی گئی ہے محال نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے، اس لیے آخر میں پھر عفو و اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس کا اجر اپنے ذمے لیا۔ ” فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ “(تو اس کا اجر اللہ پر ہے) اس جملے میں اجر کی جو عظمت بیان ہوئی ہے وہ کسی بھی تفصیل سے اس طرح بیان نہیں ہو سکتی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَ مَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ ][ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو و التواضع:۲۵۸۸]”صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ معاف کر دینے کی وجہ سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ کرتا ہے اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیچا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اونچا کر دیتا ہے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا بہت عمدہ کلام نقل فرمایا ہے، جس میں انھوں نے دو آیات کے حوالے سے اور طبعی وعقلی حوالے سے عفو کی فضیلت بیان کی ہے۔ انھوں نے فرمایا: ”جب کوئی شخص تمھارے پاس کسی شخص کی شکایت لے کر آئے تو اسے کہو، میرے بھائی! اسے معاف کر دو، کیونکہ عفو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اَنْ تَعْفُوْۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى» [ البقرۃ: ۲۳۷ ]”اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔“ اگر وہ کہے میرا دل معاف کرنے کو برداشت نہیں کرتا، میں تو انتقام لوں گا، جیسے مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو اسے کہو، اگر تم اچھے طریقے سے انتقام لے سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ عفو کی طرف پلٹ آؤ، یہ بہت وسعت والا دروازہ ہے، کیونکہ جو معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، فرمایا: «فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ» [ الشورٰی: ۴۰ ]”پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اور معاف کر دینے والا رات سکون سے بستر پر سو جاتا ہے، جبکہ انتقام لینے والا مختلف معاملات کی وجہ سے پہلو بدلتا رہتا ہے۔“[ ابن أبي حاتم: ۱۰/ ۳۲۸۰، ح: ۱۸۴۸۸، قال المحقق سندہ صحیح ]
➍ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ: سب سے پہلے تو ظالم وہ ہے جو ظلم کرنے میں پہل کرتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَی الْبَادِئِ مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُوْمُ ][ مسلم، البر و الصلۃ، باب النھي عن السباب: ۲۵۸۷ ]”دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں وہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔“ پھر مظلوم اگر انتقام میں حد سے بڑھ جائے تو ظالم شمار ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہو گا۔
➎ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بدلے کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں، عدل، فضل اور ظلم۔ عدل کا مرتبہ” جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا “ میں بیان ہوا ہے کہ بدلے میں نہ زیادتی ہو نہ کمی، جان کے بدلے جان، ہر عضو کے بدلے اس کے برابر عضو، اسی طرح مال پر زیادتی کا معاملہ ہے۔ فضل کا مرتبہ زیادتی کرنے والے سے عفو اور اس کی اصلاح ہے۔ ” فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ “ اس جملے میں عفو کی ترغیب ہے کہ جس طرح تم اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواہش مند اور امید وار ہو اسی طرح تم بھی عفو و درگزر سے کام لو، فرمایا: «وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ» [ النور: ۲۲ ]”اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے۔ “ اگر عفو سے مجرم کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اس کی سرکشی میں اضافہ ہوتا ہے تو مصلحت عفو نہیں انتقام ہے۔ اور ظلم کا مرتبہ یہ ہے کہ اس پر جتنی زیادتی کی گئی تھی اس سے بڑھ کر زیادتی کرے۔ پہلے مظلوم تھا اب ظالم بن جائے گا اور اللہ کی محبت سے محروم ہو جائے گا۔ (سعدی)