(آیت 39)وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ …: یہ چوتھا وصف ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے ان کا وصف غصے کے وقت معاف کر دینا ذکر فرمایا ہے اور یہاں انتقام کو ان کی خوبی قرار دیا ہے، تطبیق کیا ہے؟ اس کا بہترین جواب مشہور تابعی ابراہیم نخعی نے دیا ہے، انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طرزِ عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ” كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ يَكْرَهُوْنَ أَنْ يَّسْتَذِلُّوْا وَ كَانُوْا إِذَا قَدَرُوْا عَفَوْا۔“[ ابن کثیر بحوالہ ابن أبي حاتم: ۱۸۴۸۶، وقال حکمت بن بشیر سندہ صحیح ]”مومن یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ذلت قبول کریں، مگر جب قدرت پاتے تو معاف کر دیتے تھے۔“ خلاصہ یہ ہے کہ اگر معاف کرنا مجرم کے جرم سے باز آنے کا باعث ہو تو عفو افضل ہے، لیکن اگر معاف کرنے سے اس کی سرکشی میں اور جرم پر جرأت میں اضافہ ہو تو انتقام لینا چاہیے۔ دلیل اس کی لفظ ” الْبَغْيُ “(سرکشی) ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے:
”جب تم کسی معزز آدمی کی عزت کرو گے تو اس کے مالک بن جاؤ گے اور اگر تم کمینے کی عزت کرو گے تو وہ سرکش ہو جائے گا۔“
ابن کثیر نے فرمایا، یعنی ان میں اس شخص سے انتقام لینے کی قوت ہوتی ہے جو ان پر ظلم اور زیادتی کرے، نہ وہ عاجز ہوتے ہیں نہ ذلیل، بلکہ جو سرکشی کرے اس سے انتقام کی قدرت رکھتے ہیں، اس کے باوجود جب قابو پا لیتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا: «لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ» [ یوسف: ۹۲ ]”آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں بخشے۔“ حالانکہ وہ ان کے مؤاخذے پر اور اس سلوک کا بدلا لینے پر پوری قدرت رکھتے تھے جو انھوں نے ان کے ساتھ کیا تھا اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں سے فرمایا جنھوں نے آپ سے دشمنی کی انتہا کر دی تھی اور جن کی گردنیں آپ کے ایک اشارے سے تن سے جدا ہو سکتی تھیں: [ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ][ السنن الکبرٰی للنسائي: ۱۱۲۹۸ ] اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسی (۸۰) آدمیوں کو معاف کر دیا جو کوہِ تنعیم سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لیے اترے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قابو پا لیا تو قدرت کے باوجود ان پر احسان فرما دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غورث بن حارث کو معاف کر دیا، جس نے آپ کو اچانک قتل کرنے کا ارادہ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے تو اس نے آپ کی تلوار میان سے نکال لی، آپ بیدار ہوئے تو وہ ننگی اس کے ہاتھ میں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھڑکا تو اس نے نیچے رکھ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو بلا کر ساری بات بتائی اور اسے معاف کر دیا۔ (دیکھیے بخاری: ۴۱۳۶) اسی طرح لبید بن اعصم کو معاف کر دیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا، اس سے باز پرس بھی نہیں فرمائی۔ (دیکھیے بخاری: ۵۷۶۵) اسی طرح اس یہودی عورت زینب کو معاف فرما دیا جو خیبر کے یہودی مرحب کی بہن تھی، جسے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، جس نے خیبر کے موقع پر بکری کے بازو میں زہر ملا دیا تھا، بکری کے اس بازو نے آپ کو اس کی اطلاع دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا تو اس نے اعتراف کر لیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تمھیں اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا، میرا ارادہ یہ تھا کہ اگر آپ نبی ہوئے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے گی اور اگر نبی نہ ہوئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا، مگر جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قصاص میں اسے قتل کر دیا۔ (دیکھیے بخاری: ۳۱۶۹۔ ابو داود: ۴۵۰۹، ۴۵۱۱) ایسی احادیث اور بھی بہت ہیں۔ (و للہ الحمد) یہ تمام واقعات بخاری و مسلم دونوں میں یا ان میں سے ایک میں موجود ہیں۔