تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 38) وَ الَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ: واجب الاجتناب چیزوں کے بعد ان اوصاف کا ذکر فرمایا جن سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ وہ چار ہیں، جن پر عمل اتحادِ امت کا اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے۔ اجابت اور استجابت دونوں کا معنی قبول کرنا ہے، مگر استجابت میں حروف زائد ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا رب انھیں جس کام کے لیے بلاتا ہے وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، نہ دیر کرتے ہیں نہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور ان کے رب کا ان سے تقاضا بھی یہی ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال (۲۴)۔

وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ: ان چار اوصاف میں سے سب سے پہلے نماز قائم کرنے کا ذکر فرمایا، کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ یہی نماز قائم کرنا ہے جو سب کے سامنے مسلم و کافر کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۵، ۱۱)۔

وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ: شَارَ يَشُوْرُ شَوْرًا (ن) وَاشْتَارَ الْعَسَلَ چھتے سے شہد نکالنا۔ مشورے کو مشورہ اور شوریٰ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ بہت سے لوگوں کی رائے حاصل کرنے کا نام ہے۔ یہ دوسرا وصف ہے۔ وہ کام جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام موجود ہیں ان میں مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی، ان میں استجابت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کے ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ تمام لوگوں کی بہتر سے بہتر رائے سے آگاہ ہو کر بہترین بات تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شخص اپنے آپ کو عقلِ کل نہیں سمجھتا کہ اپنی رائے کو حرف آخر قرار دے کر اس پر اصرار کرے اور فرعون کی طرح کہے: «‏‏‏‏مَاۤ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ» [ المؤمن: ۲۹ ] میں تو تمھیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود رائے رکھتا ہوں اور میں تمھیں بھلائی کا راستہ ہی بتا رہا ہوں۔ کیونکہ یہ رویہ کوئی متکبر شخص ہی اختیار کرتا ہے، جو دوسروں کو اور ان کی رائے کو کوئی وزن نہ دے، مومن کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا» ‏‏‏‏ [ القصص: ۸۳ ] یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا۔ مومن ہمیشہ خائف رہتا ہے کہ اس سے فہم کی غلطی ہو جائے یا لاعلمی کی وجہ سے یا شیطان یا نفس کے دخل سے غلط فیصلہ کر بیٹھے، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے صحابہ سے مشورے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کیا جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح حکم نہیں تھا۔

➍ آج کل بہت سے لوگ شوريٰ سے مراد جمہوریت اور ووٹ لیتے ہیں، حالانکہ مشورہ تو خلیفہ بھی کرتا ہے، بادشاہ بھی، جیسے ملکہ سبا نے کیا اور چھوٹے سے چھوٹے کنبے کا سربراہ بھی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام درست طریقے سے چل ہی نہیں سکتا۔ اگر نہ کرنا چاہے تو جمہوری وزیر اعظم بھی مشورے کے بجائے اپنی پارٹی کے ارکان کو اپنی استبدادی رائے پر مجبور کر سکتا ہے، جیسا کہ ہم اپنے ملک میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مشورے اور جمہوریت کے فرق کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آلِ عمران کی آیت (۱۵۹): «وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ» ‏‏‏‏ کی تفسیر۔ سورۂ نمل کی آیت (۳۲) کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔

وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ: یہ تیسرا وصف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۳) کی تفسیر۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.