(آیت 32)وَ مِنْ اٰيٰتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ:” الْجَوَارِ “” جَارِيَةٌ “(چلنے والی)کی جمع ہے، یعنی کشتی یا بحری جہاز، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ» [ الحاقۃ: ۱۱ ]”بے شک ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا تمھیں کشتی میں سوار کیا۔“”اَلْأَعْلَامُ “”عَلَمٌ“ کی جمع ہے، پہاڑ۔ اصل میں کوئی نشان جس سے کسی چیز کا علم ہو، مثلاً جھنڈا وغیرہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے سمندر میں چلنے والے بحری جہاز بھی ہیں جو پہاڑوں کی طرح بلند ہیں اور دور سے نظر آتے ہیں۔ پانی میں مخصوص حجم اور وزن والی چیز کو اٹھائے رکھنے کی خاصیت اللہ واحد کی پیدا کردہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ہزاروں لاکھوں ٹن کے بحری جہازوں کو اپنے سینے پر اٹھائے رکھتا ہے، جن سے تم بے شمار منافع حاصل کرتے ہو۔ یہاں جہازوں کے لیے ”اَلْفُلْكُ“ کے بجائے ” الْجَوَارِ “ کے لفظ کے ساتھ اس نعمت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ ان جہازوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچائے رکھنے کے ساتھ انھیں پانی میں چلانے کی نعمت پر بھی غور کرو، اگر یہ نعمت نہ ہوتی تو جس طرح خشک زمین پر کھڑی عمارتیں اگرچہ زمین میں نہیں دھنستیں، مگر جتنی بھی تیز ہوا آ جائے ایک انچ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتیں، اسی طرح یہ جہاز بھی پانی پر کھڑے رہتے۔ تو کوئی اور ہے تو لاؤ جو کہے کہ میں نے سمندر کو پیدا کیا، یا پانی میں یہ تاثیر رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و قدرت کی اس نشانی اور عظیم نعمت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ یٰس (۴۱ تا ۴۴)، بقرہ (۱۶۴)، نحل (۱۴) اور سورۂ فاطر (۱۲)۔