(آیت 29) ➊ مِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اس کی تفسیر متعدد مقامات پر گزر چکی ہے۔
➋ وَ مَا بَثَّ فِيْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍ: ” دَآبَّةٍ “”دَبَّ يَدِبُّ دَبًّا وَ دَبِيْبًا“(ض) سے اسم فاعل ہے۔ یہ لفظ ”دَابٌّ“ کا مؤنث ہے، مگر مذکر و مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جمع ”دَوَابُّ“ ہے، کیونکہ اس میں تاء وحدت کے لیے ہے، یعنی چلنے والا جانور خواہ سانپ کی طرح پیٹ کے بل چلے یا دو یا چار ٹانگوں پر چلے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى بَطْنِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى رِجْلَيْنِ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» [ النور: ۴۵ ]”اور اللہ نے ہر چلنے والا (جاندار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ “ یہ آیت دلیل ہے کہ ” دَآبَّةٍ “ سے مراد جانور ہیں فرشتے نہیں۔
زمین میں پھیلائے ہوئے مختلف جانوروں کا مشاہدہ تو ہر آدمی کرتا رہتا ہے، اس آیت میں زمین و آسمان دونوں میں پھیلائے ہوئے جانوروں کا ذکر فرمایا۔ اس لیے بعض مفسرین نے یہ خیال فرما کر کہ آسمانوں میں جانوروں کے وجود کا صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں ذکر نہیں اس کی مختلف تاویلیں فرمائی ہیں۔ چنانچہ بعض نے فرمایا، اس سے مراد زمین کے جانور ہی ہیں، کیونکہ وہ زمین و آسمان کے اندر ہی ہیں۔ بعض نے فرمایا، اس سے مراد آسمانوں کے فرشتے ہیں، کیونکہ وہ اڑنے کے ساتھ ساتھ چل بھی سکتے ہیں، مگر ان تاویلوں کی ضرورت تب ہے جب آسمانوں میں جانوروں کا وجود ناممکن ہو۔ جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے وہ جانور بھی ہیں جو اس نے زمین و آسمان میں پھیلا دیے ہیں تو ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ آسمانوں میں بھی جانور موجود ہیں، خصوصاً جنت میں جہاں ہر نعمت موجود ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہاں کتنی قسم کے خوبصورت سے خوبصورت جانور موجود ہیں۔
➌ وَ هُوَ عَلٰى جَمْعِهِمْ اِذَا يَشَآءُ قَدِيْرٌ: جس طرح زمین و آسمان کے جانوروں کو پیدا کرنا اور پھیلانا اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے اسی طرح انھیں جمع کرنے پر قدرت بھی بہت بڑی نشانی ہے۔ انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ پرندوں کے ایک جھنڈ کے بکھرنے والے پرندوں کو جمع نہیں کر سکتا، نہ شہد کے کسی چھتے سے بکھرنے والی مکھیوں کو جمع کر سکتا ہے، حتیٰ کہ اپنے ہم سبق ساتھیوں کو اکٹھا نہیں کر سکتا، خواہ وہ زندہ ہی ہوں۔ یہ رب تعالیٰ ہی ہے جو تمام جانوروں کو، زندہ ہوں یا مردہ، جمع کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن وہ انسانوں کے ساتھ جانوروں کو بھی دوبارہ زندہ فرمائے گا، فرمایا: «يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ»[ التغابن: ۹ ]”جس دن وہ تمھیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا، وہی ہار جیت کا دن ہے۔“