(آیت 27) ➊ وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ: یہ ایک سوال کا جواب ہے جو یہاں ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایمان اور عملِ صالح والوں کی دعا بہت جلدی قبول فرماتا ہے تو یہ لوگ تو رزق کی فراخی کی دعا بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود ان پر رزق کی تنگی کیوں ہے؟ ابتدائے اسلام میں ایمان والوں پر رزق کی بہت تنگی آئی، خصوصاً جب کفار نے ان کے ساتھ میل جول اور خرید و فروخت غرض تمام چیزوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ جواب یہ دیا گیا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ جتنا رزق مانگیں انھیں اتنا ہی دے دیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کا رزق ان کی مصلحت کے مطابق ایک اندازے کے ساتھ جتنا چاہتا ہے نازل فرماتا ہے۔ اگر وہ ان کے تقاضے کے مطابق ان کے لیے رزق فراخ کر دیتا تو یقینا وہ زمین میں سرکش ہو جاتے، کیونکہ عام طور پر آدمی جب غنی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤى (6) اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى»[ العلق: 7،6 ]”ہرگز نہیں، بے شک انسان یقینا حد سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ غنی ہوگیا ہے۔“ اور مال و دولت کی کثرت اسے لوگوں پر زیادتی پر ابھارتی ہے۔ قارون اور فرعون کا حال دیکھ لو! اگر ان کے پاس اتنی دولت نہ ہوتی تو اس طرح برباد نہ ہوتے۔ اس لیے مومنوں کے حق میں خیر یہی ہے کہ ان کا رزق زیادہ فراخ نہ کیا جائے، اگرچہ اس کے خیر ہونے کا پورا ادراک انھیں دیر سے یعنی قیامت کے دن ہو گا۔ اس کے علاوہ مال کی کمی کا مومن کو ایک اور فائدہ بھی ہے کہ اسے عملِ صالح کے لیے فراغت حاصل رہتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مشغول رہ کر آخرت کی تیاری سے غافل نہیں ہوتا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے جزیے کا مال لے کر آئے تو انصار صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے اور بعد میں آپ کے سامنے آ بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: [ أَظُنُّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَيْءٍ؟ قَالُوْا أَجَلْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ فَأَبْشِرُوْا وَأَمِّلُوْا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللّٰهِ! لاَ الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَيْكُمْ، وَلٰكِنْ أَخْشٰی عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوْهَا كَمَا تَنَافَسُوْهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ ][بخاري، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع أھل الذمۃ والحرب: ۳۱۵۸ ]”میرا خیال ہے تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں؟“ انھوں نے کہا: ”جی ہاں، یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو خوش ہو جاؤ اور خوش کرنے والی چیزوں کی امید رکھو، پس اللہ کی قسم! میں تم پر فقیری سے تو ڈرتا ہی نہیں، بلکہ تم پر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا فراخ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کر دی گئی، تو تم ایک دوسرے سے زیادہ اس میں رغبت کرنے لگو، جیسا کہ انھوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اس میں رغبت کی اور وہ تمھیں اسی طرح ہلاک کر دے جس طرح اس نے انھیں ہلاک کر دیا۔ “
➋ ” وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ “ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان بھی جتلایا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ لوگ زمین میں سرکشی کریں گے ان کا رزق فراخ کر دیتا، جیسا کہ اس نے فرعون کا رزق یہ جاننے کے باوجود فراخ کر دیا۔ چنانچہ اگر اسے ملک مصر نہ ملتا تو وہ کبھی خدائی کا دعویٰ نہ کرتا۔ لہٰذا رزق کی تنگی بھی اہلِ ایمان کے لیے ایک انعام ہے جس کا شکر ان پر واجب ہے۔
➌ آیت کے الفاظ ” وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ “ مومن و کافر دونوں کے لیے عام ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تکوینی تدبیر کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مومن ہوں یا کافر سب کا رزق برابر نہیں رکھا، کسی کا زیادہ ہے کسی کا کم، تاکہ لوگ ایک دوسرے کے محتاج رہیں اور ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ (دیکھیے زخرف: ۳۲) اسی طرح اس نے کسی کو ایک حد سے زیادہ رزق نہیں دیا، ورنہ لوگ زیادہ روزی پا کر زمین میں سرکشی اور فساد کرتے۔ رہے وہ لوگ جو رزق کی فراخی کی وجہ سے زمین میں فساد کرتے ہیں ان کا فساد اس فساد کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا جو وہ اپنی مرضی کے مطابق مال ملنے کی صورت میں برپا کرتے۔ اب اگر کوئی فساد فی الارض کرتا ہے تو وہ ایک حد سے نہیں بڑھ سکتا۔ کوئی کتنا بھی بڑا باغی ہو سب اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہیں۔
➍ وَ لٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۲۱) اور رعد (۸) اور سورۂ قمر (۴۹)کی تفسیر۔
➎ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۳۰) کی تفسیر۔