(آیت 25) ➊ وَ هُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ: پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے، اب اپنی توبہ قبول کرنے کی صفت فرمائی کہ توبہ قبول کرنا اور گناہوں سے درگزر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے (دیکھیے توبہ: ۱۰۴) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، کیونکہ اگر وہ چاہے تو مجرم کے معافی مانگنے پر بھی اسے معاف نہ کرے۔ مقصود انھیں توبہ کی ترغیب دلانا اور کفر پر اصرار کے انجامِ بد سے ڈرانا ہے۔ کفر سے توبہ اسلام قبول کرنے سے ہوتی ہے اور گناہ سے توبہ میں تین چیزیں شامل ہیں، ایک پچھلے گناہ پر ندامت، دوسرا اسے ترک کر دینا، تیسرا آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم اور اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حق سے ہے تو حسبِ استطاعت اسے ادا کر دینا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا۔ اگر آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم نہ ہو تو توبہ کا کچھ مطلب نہیں۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے:
سجہ در كف، توبہ بر لب، دل پُر از ذوقِ گناہ
معصيت را خندہ مے آيدز استغفارِ ما
”ہاتھ میں تسبیح ہے، زبان پر توبہ اور دل گناہ کی لذت سے بھرا ہوا ہے، گناہ کو ہمارے استغفار پر ہنسی آتی ہے۔“
➋ عَنْ عِبَادِهٖ: اس میں توبہ قبول کرنے کی ایک وجہ بیان فرمائی ہے کہ گناہ کرکے توبہ کرنے والے اس کے اپنے بندے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۷)، آل عمران (۱۳۵) اور سورۂ نساء (۱۱۰)۔
➌ وَ يَعْفُوْا عَنِ السَّيِّاٰتِ: توبہ مستقبل کے لیے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گزشتہ معاف کر دی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے کہ توبہ پر گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے، بلکہ سورۂ فرقان کی آیت (۷۰) کے مطابق توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کس قدر خوش ہوتا ہے، اس کی تفصیل انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَلّٰهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِيْنَ يَتُوْبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلٰی رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ، وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتٰی شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِيْ ظِلِّهَا، قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذٰلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَبْدِيْ وَ أَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ][مسلم، التوبۃ، باب في الحض علی التوبۃ والفرح بھا: ۲۷۴۷ ]”یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان میں اپنی اونٹنی پر سوار تھا تو وہ اس سے چھوٹ کر نکل گئی، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر تھا۔ تو وہ اس سے ناامید ہو گیا اور ایک درخت کے پاس جا کر اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ حال اس کا یہ تھا کہ وہ اپنی اونٹنی سے مایوس ہو چکا تھا، وہ اسی حال میں تھا کہ اچانک اس نے اسے دیکھا کہ وہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، چنانچہ اس نے اس کی مہار پکڑ لی، پھر شدید خوشی میں کہنے لگا: ”اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔“ خوشی کی شدت سے غلطی کر بیٹھا۔“
➍ اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ بعض اوقات توبہ کے بغیر بھی گناہ معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ ہجرت کے بعد پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، حجِ مبرور کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، شہادت فی سبیل اللہ سے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور نیکیوں کی کثرت سے گناہ مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ» [ ھود: ۱۱۴ ]”بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔“ اور کبیرہ گناہوں کے اجتناب سے صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہو جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب مومن کو، اگر وہ توبہ نہ کرے تو کافر یا ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں، ان کی بات درست نہیں۔
➎ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ: اس جملے میں بشارت بھی ہے اور نذارت بھی۔ عمل کا دارو مدار دل کی حالت پر ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اخلاص سے توبہ کی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور اسے قبولیت سے نوازے گا اور اگر توبہ اپنے کسی دنیوی مقصد کے لیے کی گئی ہو، مثلاً ریا کے طور پر یا آئندہ توڑ ڈالنے کے ارادے سے، یا کسی دنیوی فائدے کے لیے، مثلاً صحت و قوت کے لیے زنا، سگریٹ یا شراب کو ترک کیا گیا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے۔