(آیت 22) ➊ تَرَى الظّٰلِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا …: ” الظّٰلِمِيْنَ “ سے یہاں بھی وہی ظالم یعنی کافر و مشرک مراد ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، کیونکہ کوئی اسم معرف باللّام ہو کر دوبارہ آئے تو اس سے پہلا ہی مراد ہوتا ہے اور اس لیے کہ ان کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح والے لوگوں کا ذکر آ رہا ہے، یعنی ” وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ …۔“ اس آیت میں قیامت کے دن ان مشرکین کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ عذاب سے پہلے اس کا شدید خوف بجائے خود ایک بڑا عذاب ہے، پھر ہر حال میں ان کے کفر و شرک کا وبال ان پر آ کر رہنے والا ہے، خواہ ڈریں یا نہ ڈریں۔ دنیا میں کفار قیامت سے بے خوف تھے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ پیچھے گزرا ہے: «يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا» [الشورٰی: ۱۸ ]”اسے وہ لوگ جلدی مانگتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے۔“ قیامت کے دن وہی کافر سخت خوف زدہ ہوں گے۔ ان کے برعکس ایمان والے دنیا میں قیامت سے سخت خوف زدہ رہتے تھے، جیسا کہ پہلے گزرا ہے: «وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا»[ الشورٰی: ۱۷ ]”اور وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ اس (قیامت) سے ڈرنے والے ہیں۔“ سو اب وہ جنتوں کے باغوں میں بے خوف ہوں گے۔
➋ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ …:”رَوْضَةٌ“ کا معنی ہے ”الْمَوْضِعُ النَّزِهُ الْكَثِيْرُ الْخُضْرَةِ“ کہ نہایت صاف ستھری اور بہت سرسبز جگہ۔ ” رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ “ سے ظاہر ہے کہ جنتیں بھی بہت سی ہیں اور روضات بھی بہت سے ہیں، یعنی (مومن کسی درجے کے بھی ہوں جنت میں ہوں گے، مگر) ایمان اور عمل صالح والے جنت کے بھی پاکیزہ ترین اور سب سے سرسبز مقامات میں ہوں گے۔ جن میں سب سے عالی مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا، جیسا کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل خواب روایت کیا ہے، جس میں ہے کہ دو فرشتوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف گناہوں کے عذاب کا منظر دکھایا، اس کے بعد ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے چلنے کے لیے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلٰی رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ، فِيْهَا شَجَرَةٌ عَظِيْمَةٌ، وَ فِيْ أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ، وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيْبٌ مِنَ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوْقِدُهَا، فَصَعِدَا بِيْ فِي الشَّجَرَةِ، وَ أَدْخَلاَنِيْ دَارًا لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا، فِيْهَا رِجَالٌ شُيُوْخٌ وَشَبَابٌ، وَ نِسَاءٌ وَصِبْيَانٌ، ثُمَّ أَخْرَجَانِيْ مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ فَأَدْخَلاَنِيْ دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَ أَفْضَلُ، فِيْهَا شُيُوْخٌ وَ شَبَابٌ، فَقُلْتُ طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ، فَأَخْبِرَانِيْ عَمَّا رَأَيْتُ؟ قَالاَ نَعَمْ، فَذَكَرَ الْحَدِيْثَ حَتّٰی قَالَ وَالشَّيْخُ فِيْ أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلاَدُ النَّاسِ، وَالَّذِيْ يُوْقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ، وَالدَّارُ الْأُوْلَی الَّتِيْ دَخَلْتَ، دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَأَمَّا هٰذِهِ الدَّارُ، فَدَارُ الشُّهَدَاءِ، وَ أَنَا جِبْرِيْلُ، وَ هٰذَا مِيْكَاءِيْلُ، فَارْفَعْ رَأْسَكَ، فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ، فَإِذَا فَوْقِيْ مِثْلُ السَّحَابِ، قَالاَ ذَاكَ مَنْزِلُكَ، قُلْتُ دَعَانِيْ أَدْخُلْ مَنْزِلِيْ، قَالاَ إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ، فَلَوِ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ ][بخاري، الجنائز، باب ما قیل في أولاد المشرکین: ۱۳۸۶ ]”پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم ایک سر سبز روضہ (باغ) میں پہنچے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا، اس کی جڑ (تنے) کے پاس ایک بزرگ اور کچھ بچے تھے اور اس درخت کے قریب ایک آدمی تھا جس کے سامنے آگ تھی، جسے وہ بھڑکا رہا تھا، پھر وہ دونوں مجھے لے کر درخت پر چڑھ گئے اور مجھے ایک ایسے گھر کے اندر لے گئے جس سے خوبصورت گھر میں نے نہیں دیکھا، اس میں کچھ بزرگ اور جوان آدمی اور عورتیں اور بچے تھے، پھر انھوں نے مجھے اس گھر سے نکالا اور مجھے لے کر اس درخت کے اور اوپر چڑھے اور ایک گھر کے اندر لے گئے جو پہلے سے زیادہ خوبصورت اور برتر تھا، اس میں کچھ بزرگ تھے اور کچھ جوان۔ میں نے کہا: ”تم دونوں نے آج رات مجھے خوب گھمایا ہے، اب جو کچھ میں نے دیکھا ہے مجھے اس کی حقیقت بتاؤ؟“ تو انھوں نے کہا: ”ہاں، ٹھیک ہے (پھر انھوں نے عذاب والے مناظر کی حقیقت بتانے کے بعد کہا) اور درخت کی جڑ کے پاس جو بزرگ تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد بچے لوگوں کی اولاد تھے اور جو آگ بھڑکا رہا تھا وہ آگ کا خازن مالک تھا اور پہلا گھر جس میں آپ داخل ہوئے عام ایمان والوں کا گھر تھا۔ رہا یہ گھر تو یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہے، اب سر اٹھاؤ!“ میں نے سر اٹھایا تو اچانک میرے اوپر بادل کی طرح کی چیز تھی۔ دونوں نے کہا: ”وہ تمھارا گھر ہے۔“ میں نے کہا: ”مجھے چھوڑو میں اپنے گھر جاؤں۔“ انھوں نے کہا: ”آپ کی کچھ عمر باقی ہے جو آپ نے پوری نہیں کی، اگر پوری کر لو گے تو اپنے گھر میں آ جاؤ گے۔“ اس حدیث سے ” رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ “ کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے اور یہ بھی کہ ” رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ “ میں سب سے اعلیٰ ”رَوْضَةُ الْجَنَّةِ“ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے۔
➌ ان آیات میں متعدد وجہوں سے مومنوں کو ملنے والے ثواب کی عظمت بیان کی گئی ہے، ایک یہ کہ وہ ” رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ “ میں ہوں گے، دوسری یہ کہ ” لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ “ یعنی انھیں وہاں جو چاہیں گے ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انھیں حاصل ہونے والی نعمتوں کی انتہا نہیں ہو گی، کیونکہ آدمی ہر نعمت کے بعد اس سے اعلیٰ نعمت کا خواہش مند ہوتا ہے۔ تیسری ” عِنْدَ رَبِّهِمْ “ کہ ان کی رہائش گاہیں ان کے رب کے پڑوس میں ہوں گی۔ یہ وہ چیز ہے جس کی دعا فرعون کی بیوی نے کی تھی: «رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» [ التحریم: ۱۱ ]”اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا۔“ چوتھی یہ کہ انھیں عطا ہونے والی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے فضل کبیر قرار دیا ہے، فرمایا: «ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ» پھر جسے اللہ تعالیٰ اکبر اور کبیر قرار دے اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہو گا۔ پانچویں وجہ سے انھیں ملنے والے ثواب کی عظمت کا بیان اگلی آیت میں ہے۔
➍ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ: اس سے معلوم ہوا کہ جنت محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس پر کسی کا حق واجب نہیں۔