(آیت 20) ➊ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ …: اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آدمی کے لیے کھیت بنایا ہے، وہ اس میں جو بوئے گا وہی کاٹے گا اور جس چیز کا ارادہ کرے گا وہی ملے گی۔ اسی طرح اس نے دنیا کو تجارت کی جگہ بنایا ہے، اگر خیر کا سودا کرے گا تو نفع میں خیر ملے گی، اگر شر کا سودا کرے گا تو نتیجہ میں شر پائے گا۔ اسی طرح دنیا کو آخرت کا راستہ بنایا ہے، اگر خیر کے راستے پر چلے گا تو منزل مراد پا لے گا اور ہمیشہ کی جنت میں پہنچ جائے گا، اگر شر کے راستے پر چلے گا تو ہمیشہ کے عذاب اور دائمی غم میں جا پڑے گا۔ اس تجارت کے نفع و نقصان کا کئی آیات میں ذکر فرمایا ہے، فرمایا: «اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ» [ التوبۃ: ۱۱۱ ]”بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ اور فرمایا: «وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ» [ البقرۃ: ۲۰۷ ]”اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے۔“ اور فرمایا: «اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ» [ البقرۃ: ۸۶ ]”یہی لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے خریدی۔“
➋ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رزق کا قانون بیان فرمایا کہ وہ سب کے لیے یکساں نہیں، وہ جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور اس میں اس کی بے شمار حکمتیں ہیں۔ (دیکھیے زخرف: ۳۲) اس آیت میں فرمایا کہ آدمی کی کوشش اور نیت کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی اسے ملنے والا رزق مختلف ہے۔
➌ آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھنے والے کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیا تو نیک ہو یا بد ہر ایک کو تھوڑی یا زیادہ ملنی ہی ملنی ہے، آخرت کے متعلق بشارت دی کہ ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے، کیونکہ اس کی نیت اور کوشش اسی کی ہے۔ اضافہ یہ ہے کہ دنیا میں اسے مزید نیکیوں کی توفیق دیں گے اور آخرت میں ایک نیکی کو دس گنا سے ہزاروں لاکھوں تک بلکہ شمار سے بھی زیادہ بڑھائیں گے اور دائمی نعمتیں عطا کریں گے، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا» [ بني إسرائیل: ۱۹ ]”اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔“
➍ وَ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا …:” مِنْهَا “ میں ”مِنْ“ تبعیض کے لیے ہے۔ یعنی جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرے گا اور دنیا ہی کے لیے کوشش اور محنت کرے گا، ایک تو یہ کہ اسے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے بلکہ ہم اسے اس میں سے کچھ حصہ ہی دیں گے، دوسرا یہ کہ وہ حصہ بھی ہم دنیا ہی میں دے دیں گے، آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں، کیونکہ آخرت کی نیت سے اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یہی بات ایک اور آیت میں یوں بیان فرمائی: «مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا»[بني إسرائیل: ۱۸ ]”جو شخص اس جلدی والی (دنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لیے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا۔ “ اور فرمایا: «فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ»[ البقرۃ: ۲۰۰ ]”پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ “