(آیت 18) ➊ يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا: ”اِسْتِعْجَالٌ“ کا معنی ہے کسی چیز کے وقت سے پہلے اس کےلانے کا مطالبہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت سے اور اس کے قریب ہونے سے ڈراتے تو کفار اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرتے۔ مقصد ان کا صرف قیامت کا انکار اور اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا کہ جب وہ ان کے مطالبے پر فوراً برپا نہیں ہو گی تو وہ اسے جھٹلائیں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے کہ اگر قیامت ہوتی تو ہمارے مطالبے پر آ جاتی، حالانکہ وہ ان کی فرمائش پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت پر آئے گی جس کا اس کے سوا کسی کو علم نہیں۔ اس آیت میں ان کی اس جرأت کی وجہ بیان فرمائی کہ ان کے اس مطالبے کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتے جس میں اعمال کی باز پرس ہو گی۔ اگر انھیں اس بات کا یقین ہوتا تو وہ کبھی اس کے لیے جلدی نہ مچاتے، بلکہ اس کی تیاری کی فکر کرتے۔
➋ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا …: یعنی منکرین قیامت کے برعکس جو لوگ اس پر یقین و ایمان رکھتے ہیں وہ ہر وقت اس بات سے سخت ڈرتے رہتے ہیں کہ کب موت آ کر عمل کی مہلت ختم کر دے، پھر قیامت کبریٰ برپا ہونے پر حساب کے وقت ان کا کیا حال ہو۔ (دیکھیے انبیاء: ۴۹۔ نور: ۳۷۔ دہر: ۷) کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ ہو کر رہنے والی ہے۔
➌ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۭ بَعِيْدٍ: ” يُمَارُوْنَ “ کا معنی ”شک کرتے ہیں“ بھی ہے اور ”جھگڑتے ہیں“ بھی۔ یعنی قیامت کا یقین ہو تو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور حق واضح ہونے پر اسے قبول بھی کر لیتا ہے، مگر جسے اس کے آنے ہی میں شک ہو اور وہ اس کے متعلق جھگڑا کرتا رہتا ہو وہ ایمان لانے اور نیک اعمال اختیار کرنے کو بے کار سمجھے گا اور محاسبے کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے ہر گناہ پر دلیر ہو گا اور بڑے سے بڑے ظلم سے بھی گریز نہیں کرے گا، ایسے لوگ راہِ حق سے بہت دور جا چکے ہیں، جہاں سے ان کی واپسی ممکن نہیں۔ ” ضَلٰلٍۭ بَعِيْدٍ “ میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ سیدھے راستے سے اتنے دور جا چکے ہیں کہ ان کی آنکھیں قیامت کے دن ہی کھلیں گی، جب واپس پلٹنا ممکن نہیں ہو گا۔ دیکھیے سورۂ سبا (۵۱ تا ۵۴)۔