(آیت 17) ➊ اَللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِيْزَانَ:” الْكِتٰبَ “ میں الف لام جنس کا ہو تو مراد تمام روحانی کتابیں ہیں اور اگرعہد کا ہو تو مراد یہ کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ یعنی کیا جانتے بھی ہو کہ جس اللہ کے بارے میں تم جھگڑ رہے ہو وہ کون ہے اور اس کی صفات اور اس کے احکام کیسے معلوم ہو سکتے ہیں؟ فرمایا اللہ وہی ہے جس نے یہ کتاب یعنی قرآن مجید حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے، اس کی ہر بات حق ہے، اس میں باطل کی آمیزش ہو ہی نہیں سکتی، جیسا کہ فرمایا: «لَا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ» [ حٰمٓ السجدۃ: ۴۲ ]”اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔“ اور اسی نے میزان اتارا ہے جس کے ساتھ لوگ اپنے تمام معاملات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر سکیں۔ ” الْمِيْزَانَ “ سے مراد اکثر مفسرین نے عدل و انصاف لیا ہے، بعض نے اس سے مراد دین حق اور بعض نے جزا و سزا کا قانون لیا ہے۔ ان میں سے جو بھی مراد لیں بات ایک ہی ہے اور اس میزان سے مراد اللہ کے دین اور اس کی شریعت پر مشتمل یہ کتاب ہی ہے جو خالق و مخلوق کے درمیان معاملات اور مخلوق کے باہمی معاملات اور تمام تنازعات کے لیے میزان ہے، جو ہر بات ترازو کی طرح تول کر صحیح یا غلط اور حق یا باطل کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ اوپر فرمایا تھا: «وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ» [الشورٰی: ۱۵ ](اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں) اور اس آیت میں بتا دیا کہ اس کتاب پاک کی صورت میں میزان آ گئی ہے، جس کے ساتھ وہ عدل قائم کیا جائے گا۔ یہ کتاب دوسرے معاملات کی طرح پہلی کتابوں کے لیے بھی میزان اور ان کی نگران ہے کہ ان میں کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور کون سی ملا دی گئی ہیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ» [ المائدۃ: ۴۸ ]”اور ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو کتابوں میں سے اس سے پہلے ہے اور اس پر محافظ ہے۔“
➋ یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں ” الْكِتٰبَ “ اور ” الْمِيْزَانَ “ کے درمیان واؤ عطف ہے جو مغایرت کے لیے ہوتی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ کتاب اور میزان الگ الگ چیزیں ہیں، اب اگر میزان سے مراد کتاب ہی ہو تو مغایرت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح اگر میزان سے مراد عدل و انصاف لیں تب بھی کتاب اور میزان کے درمیان مغایرت نہیں رہتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں عین عدل و انصاف ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ایک ہی چیز کا ذکر جب اس کی مختلف صفات کے ساتھ کیا جائے تو اس کا عطف خود اس پر ہو سکتا ہے، کیونکہ صفات کے تغایر کو ذوات کے تغایر کی طرح قرار دے لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے: «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1) الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى (2) وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (3) وَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى»[ الأعلٰی: ۱ تا ۴ ] ان آیات میں ” الَّذِيْ “(وہ ذات) کو عطف کے ساتھ الگ الگ بیان کیا گیا ہے، حالانکہ وہ ایک ہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر جملے میں وہ الگ الگ صفت کے ساتھ مذکور ہے۔ کلامِ عرب میں سے اس کی مثال یہ شعر ہے:
إِلَي الْمَلِكِ الْقَرْمِ وَابْنِ الْهُمَامِ
وَ لَيْثِ الْكَتِيْبَةِ فِي الْمُزْدَحَمِ
[ أضواء البیان ]
➌ وَ مَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيْبٌ: اور تجھے کیا چیز آگاہ کرتی ہے شاید کہ وہ قیامت بالکل نزدیک ہو اور جو سانس تم لے رہے ہو یہی آخری ہو، اس لیے اس فکر میں مت پڑو کہ وہ کب ہے، بلکہ یہ فکر کرو کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بادیہ والوںمیں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَتَی السَّاعَةُ قَائِمَةٌ؟ قَالَ وَيْلَكَ وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا إِلاَّ أَنِّيْ أُحِبُّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهُ، قَالَ إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ فَقُلْنَا وَ نَحْنُ كَذٰلِكَ؟ قَالَ نَعَمْ، فَفَرِحْنَا يَوْمَئِذٍ فَرَحًا شَدِيْدًا، فَمَرَّ غُلاَمٌ لِلْمُغِيْرَةِ وَكَانَ مِنْ أَقْرَانِيْ فَقَالَ إِنْ أُخِّرَ هٰذَا فَلَنْ يُدْرِكَهُ الْهَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ ][ بخاري، الأدب، باب ما جاء في قول الرجل ویلک: ۶۱۶۷ ]”یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہونے والی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس تم پر! تم نے اس کے لیے تیاری کیا کی ہے؟“ اس نے کہا: ”میں نے اس کے لیے اس کے سوا کوئی تیاری نہیں کی کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یقینا اس کے ساتھ ہوگے جس سے تمھیں محبت ہو گی۔“ تو ہم نے کہا: ”اور ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ تو ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے۔ مغیرہ کا ایک غلام وہاں سے گزرا، وہ میرا ہم عمر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس کی عمر دراز ہوئی تو اسے سخت بڑھاپا آنے سے پہلے پہلے قیامت قائم ہو جائے گی۔“ مراد اس وقت موجود لوگوں کی قیامت ہے۔ حدیث میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر آدمی کی موت کو اس کے لیے قیامت قرار دیا، کیونکہ اس کے ساتھ اس کے لیے عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔
➍ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ” السَّاعَةَ “ مؤنث ہے، اس کی خبر ” قَرِيْبٌ “ مذکر ہے، حالانکہ دونوں میں مطابقت ہونی چاہیے؟ جواب کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف کی آیت (۵۶): «اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ» کی تفسیر۔