(آیت 14) ➊ وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ: یعنی ان کے فرقوں میں بٹ جانے کا باعث یہ نہیں تھا کہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا علم نہیں تھا اور لاعلمی کی وجہ سے انھوں نے اپنے اپنے الگ مذاہب اور مکاتب فکر بنا لیے، بلکہ یہ تفرقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم آ جانے کے بعد پیدا ہوا۔
➋ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ: یعنی الگ الگ گروہ اور فرقے بنانے کا باعث ان کا باہمی حسد، ضد اور عناد تھا، جس کی وجہ سے اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے انھوں نے اپنے اپنے قیاس و آراء کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنا ئے اور کتاب اللہ میں تحریف تک سے گریز نہ کیا، حتیٰ کہ نوبت باہمی اختلاف سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مخالفت اور پھر جنگ و جدل تک پہنچ گئی۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۳) کی تفسیر۔
➌ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ …: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حم سجدہ (۴۵) کی تفسیر۔
➍ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ …: یعنی شروع میں فرقے بنانے والوں نے علم ہونے کے باوجود حق سے انحراف کیا اور اللہ کی کتاب میں ایسی لفظی و معنوی تحریفیں کیں کہ بعد میں آنے والے لوگ، جو اس کتاب کے وارث بننے کے قابل تو نہ تھے مگر انھیں اس کا وارث بنا دیا گیا، وہ اس کتاب میں کی گئی لفظی اور معنوی تحریفات کی وجہ سے اس کی حقانیت کے متعلق ایسے شک میں مبتلا ہو گئے جو انھیں شدید مضطرب اور بے چین رکھتا تھا۔ انھیں اپنی کتابوں کے الہامی ہونے کا یقین باقی نہ رہا، بلکہ وہ کسی دلیل و برہان کے بغیر محض آنکھیں بند کرکے آبا و اکابر کی تقلید کرتے چلے گئے۔
➎ مفسر عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں: ”ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں، جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا، صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا اور ان تراجم کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین ان میں شامل کر دیے گئے، حتیٰ کہ ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی تاریخی سند بھی ضائع کر دی گئی (بلکہ سند رکھی ہی نہیں گئی)۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علماء خود اس کتاب سے شک میں پڑ گئے کہ کون سا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ ہیں اور کسی بات کا صحیح فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انھیں اضطراب میں ڈالے رکھتا تھا۔“(تیسیر القرآن)