(آیت 11) ➊ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ …: یہ اللہ ہی کو رب ماننے، اسی پر توکل اور اسی کی طرف رجوع کی مزید دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہی کسی نمونے اور مادے کے بغیر آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، جب کہ تمھارے بنائے ہوئے معبودوں نے نہ ایک ذرہ پیدا کیا نہ کر سکتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورہ حج (۷۳)۔
➋ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا …: آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے تمھارے جوڑے بنائے، تاکہ تمھاری نسل جاری ہو اور مسلسل چلتی رہے۔ اپنی جنس سے جوڑے بنانے سے جو باہمی انس حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور جنس سے جوڑا بنانے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ ابن عاشور نے فرمایا کہ عربوں میں جننیوں وغیرہ سے نکاح کی جتنی داستانیں مشہور ہیں سب جھوٹی اور خود ساختہ ہیں، کچھ لوگوں کے تخیل نے انھیں ایسا دکھایا، ورنہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ اور تمھاری ضروریات کے لیے چوپاؤں کے جوڑے بنائے، تاکہ وہ بڑھتے پھیلتے رہیں اور تم ان سے اپنی ضروریات پوری کرتے رہو۔
➌ يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ: یعنی جوڑے اس لیے بنائے تاکہ توالد و تناسل کا سلسلہ قائم رہے اور تمھاری نسل پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہے۔
➍ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ: انسانوں کے درمیان اگرچہ رنگوں اور زبانوں کا اختلاف پایا جاتا ہے اور ہر انسان دوسرے سے الگ تشخص رکھتا ہے، اس کے باوجود وہ بہت سی چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ اور ایک دوسرے کے مثل ہیں۔ چوپاؤں اور دوسرے حیوانات کا بھی یہی حال ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کا امتیاز ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات یا صفات کی مثل کسی طرح بھی نہیں۔
➎ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ: اپنے سلسلۂ ازدواج اور سلسلۂ توالد و تناسل کو دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ اللہ تعالیٰ بھی تمھاری طرح ہے۔ نہیں، خالق و مخلوق ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں اور نہ افعال و حقوق میں۔ اس کا کوئی جوڑا نہیں اور وہ نہ کسی کی اولاد ہے، نہ کوئی اس کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا شریک و ہمسر ہے۔ مزید دیکھیے سورہ اخلاص۔
➏ ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ پر ایک مشہور سوال ہے کہ جب کہنا یہ مقصود ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں تو ”لَيْسَ مِثْلَهُ شَيْءٌ “ کافی تھا، ”کاف“ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ ”کاف“ لانے سے تو بظاہر ایسا معنی پیدا ہو رہا ہے جو محال ہے، کیونکہ ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کا ترجمہ ہو گا ”اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں“ جب کہ اس ترجمے سے دو محال باتیں لازم آتی ہیں، پہلی یہ کہ اللہ کی مثل کوئی ہے جب کہ یہ محال ہے۔ دوسری یہ کہ اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں، حالانکہ جب وہ اللہ کی مثل ہے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس جیسا ہے، تبھی وہ اس کی مثل ہے۔ اس سوال کا حل اہل علم نے مختلف طریقوں سے کیا ہے، ایک یہ ہے کہ اس میں ”کاف“ زائد ہے۔ زائد کا یہ مقصد نہیں کہ بے فائدہ ہے، بلکہ وہ ”مِثْلٌ“ کی تاکید اور اس میں مبالغہ کے لیے لایا گیا ہے۔ گویا یہ بات کہ” اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں“ دو دفعہ کہی گئی ہے، ایک ”کاف“ کے ساتھ اور ایک ”مِثْلٌ“ کے ساتھ، مگر مثلیث کے معنی میں یہ مبالغہ محلِ نظر ہے۔
دوسرا حل یہ ہے کہ عرب کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے ”مِثْلٌ“ کا لفظ کسی جیسے کے لیے نہیں بلکہ اس کی ذات اور شخصیت کے لیے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ”مِثْلِيْ لَا يَكْذِبُ“ سے مراد یہ نہیں کہ میرے جیسا شخص جھوٹ نہیں بولتا، بلکہ یہ ہے کہ ”میں جھوٹ نہیں بولتا۔“ اسی طرح ”مِثْلُهُ لَا يُعْبَؤُ بِهٖ“ کا معنی یہ نہیں کہ اس جیسے شخص کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ مراد یہ ہے کہ” اس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔“ اسی طرح ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔“ یہاں ”کاف“ کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر ”کاف“ نہ لایا جاتا تو عرب محاورہ ذہن میں آنے سے خیال ایک غلط مفہوم کی طرف جا سکتا تھا، جیسے ”مِثْلُهُ لَا يُعْبَؤُ بِهٖ“ کا معنی ہے کہ فلاں شخص کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ”کاف“ کے بغیر ”لَيْسَ مِثْلَهُ شَيْءٌ“ کا معنی یہ ہو سکتا تھا کہ (معاذ اللہ) اس کی ذات کوئی شے نہیں، یااس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اب ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کہنے سے یہ اندیشہ دور ہو گیا اور بات صاف ہو گئی کہ اس کی ذات جیسی کوئی چیز نہیں۔ طبری، بقاعی، ابن ہشام اور بہت سے ائمہ نے یہاں ”مِثْلٌ“ کو شخص، ذات یا نفس کا ہم معنی قرار دے کر اس کے شواہد پیش فرمائے ہیں۔ یہ حل معنوی طور پر بہت مضبوط ہے۔
تیسرا حل یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ” مَثَلُ “ کا لفظ صفتِ شان کے معنی میں آیا ہے، جیسے یہ آیت: «مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ»[ محمد: ۱۵ ]”اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں۔“ اسی طرح یہ آیت: «وَ لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ»[ الروم: ۲۷ ]”اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی صفت (شان) اسی کی ہے۔“ اس لیے ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کا معنی یہ ہے کہ ”اللہ کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔“ یہ حل سمجھنے میں سب سے آسان ہے، معنوی طور پر بالکل درست ہے اور ائمۂ تفسیر سے منقول ہے۔ سیاق کے لحاظ سے بھی بہت مناسب ہے، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان فرمائی گئی ہیں، پھر فرمایا کہ اس کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں۔
➐ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ: ” السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ “” هُوَ “ مبتدا کی خبر ہے۔ خبر پر الف لام لانے سے قصر کا مفہوم پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ یہ ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “(اس کی ذات و صفات جیسی کوئی چیز نہیں) سے پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب ہے کہ ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کے باوجود یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے اور انسان بھی سمیع و بصیر ہے، جیسا کہ فرمایا: «فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا»[ الدھر: ۲]”سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔“ بلکہ سمع و بصر انسان کے علاوہ جانوروں میں بھی موجود ہیں اور حنانہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمادات بھی سمع و بصر سے بے بہرہ نہیں ہیں، تو اللہ تعالیٰ بے مثل کیسے ہوا؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کامل اور اصل سمیع و بصیر صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور میں پائی جانے والی یہ صفات اللہ تعالیٰ کی صفات سے کچھ مشابہت نہیں رکھتیں اور نہ ان کے مقابلے میں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بہت سے لوگوں کو ایسے اشکالات پیدا ہوئے کہ بے شمار مخلوق گمراہ ہو گئی، انھوں نے دیکھا کہ وہی الفاظ اللہ تعالیٰ کے متعلق آ رہے ہیں اور وہی مخلوق کے متعلق، مثلاً اللہ تعالیٰ کے متعلق آیا ہے: «ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ»[ الأعراف: ۵۴ ](پھر وہ عرش پر بلند ہوا) اور مخلوق کے متعلق الفاظ ہیں: «لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ» [ الزخرف: ۱۳ ](تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو) اور یہ الفاظ: «فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ» [ المؤمنون: ۲۸ ](پھر جب تو اور جو تیرے ساتھ ہیں، کشتی پر چڑھ جاؤ)۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: «يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ» [ الفتح: ۱۰ ](اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے) میں لفظ ”ید“ اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے لیے آیا ہے، یہی حال سمیع و بصیر کا ہے۔ اب کچھ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہو گئے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار دیا۔ اس کے استواء، اس کے ید، اس کے سمع و بصر اور اس کی دوسری صفات کو مخلوق کے استواء، اس کے ید، اس کے سمع و بصر اور اس کی دوسری صفات کی طرح سمجھ بیٹھے، ان لوگوں کو ”مشبهه“ کہتے ہیں اور کچھ اس وجہ سے گمراہ ہو گئے کہ انھوں نے یہ کہہ کر کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں، اس کی اُن صفات کا بھی انکار کر دیا جو اس نے خود اپنی بیان فرمائی ہیں۔ انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ نہ عرش پر مستوی ہے، نہ اس کا ہاتھ ہے، نہ اس کا سمع و بصر ہے، نہ وہ کلام کرتا ہے، کیونکہ اگر ہم اس کے لیے یہ چیزیں تسلیم کریں تو وہ مخلوق جیسا ٹھہرتا ہے۔ ان منکرینِ صفات کو ”معطّله“ کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تشبیہ و تعطیل دونوں سے بلند و برتر ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفات کا مسئلہ انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے، اس میں کوئی پیچیدگی یا اشکال باقی نہیں رہنے دیا۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ آیاتِ صفات میں حق دو چیزوں سے مرکب ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات کی مشابہت سے پاک سمجھا جائے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی جو بھی صفت بیان فرمائی ہے، یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو بھی صفت بیان فرمائی ہے اس پر مکمل ایمان رکھا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا، جیسا کہ فرمایا: «قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ» [ البقرۃ: ۱۴۰ ]”کیا تم زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ؟“ اور اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنے والا کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (3) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى» [ النجم: 4،3 ]” اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔“ اب جو شخص کسی ایسی صفت کی نفی کرے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے لیے بیان فرمائی ہے، یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، یہ کہہ کر کہ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں، تو وہ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول سے بھی زیادہ علم رکھنے والا سمجھتا ہے کہ اللہ کی شان کے لائق کون سی بات ہے اور کون سی نہیں۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہیں وہ بھی ملحد اور گمراہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ سمجھتا ہے۔ ہاں، جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان تمام صفات کو مانتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے بیان کی ہیں، یا اس کے رسول نے اس کے لیے بیان کی ہیں اور ساتھ ہی اللہ عز و جل اور اس کی صفات کو مخلوق کی مشابہت سے پاک قرار دیتا ہے، یہ صحیح مومن ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال پر بھی ایمان رکھتا ہے اور اس کی مخلوق کی مشابہت سے پاک ہونے پر بھی ایمان رکھتا ہے۔ زیرِ تفسیر آیت: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» نے اس حقیقت کو خوب واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمع و بصر کی صفات بھی رکھتا ہے اور کوئی چیز اس کی مثل اور مشابہ بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ” وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ “ کے بجائے ” وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ “ اس لیے فرمایا کہ سمع و بصر کی دونوں صفات تمام حیوانات میں بھی پائی جاتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ دونوں صفات رکھتا ہے، لیکن اس کی ان صفات کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوق کی صفات میں کوئی مماثلت نہیں، اس لیے ” وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ “ کا لفظ ” لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ “ کہنے کے بعد ارشاد فرمایا۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس لیے انکار کیا ہے کہ صفات کے لیے وہی الفاظ مخلوق پر بھی آئے ہیں، انھیں لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے وجود اور اس کی حیات کا بھی انکار کر دیں، کیونکہ مخلوق کی بھی ذات ہے، وہ بھی وجود رکھتی ہے اور اس میں بھی حیات پائی جاتی ہے، مگر جس طرح خالق اور مخلوق میں کوئی مماثلت نہیں اور دونوں کی ذات، وجود اور حیات میں کوئی مماثلت نہیں، اسی طرح خالق و مخلوق کی کسی صفت میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کامل اور حقیقی ہیں۔ مخلوق کی صفات اگرچہ ان کے حسبِ حال موجود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں کالعدم ہیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» وہی سمیع و بصیر ہے اور کوئی نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سمیع و بصیر بتایا ہے۔
اس کی تھوڑی سی تفصیل سنیے، متکلمین اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے سات صفات کو صفاتِ معانی کہتے ہیں، وہ ہیں حیات، قدرت، ارادہ، علم، سمع، بصر اور کلام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ حیات خود بیان فرمائی، فرمایا: «هُوَ الْحَيُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ»[المؤمن: ۶۵ ]”وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ اور فرمایا: «وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ»[الفرقان: ۵۸ ]”اور اس زندہ پر بھروسا کر جو نہیں مرے گا۔“ اور دوسری بہت سی آیات۔ مخلوق کی صفت بھی حیات بیان فرمائی، فرمایا: «وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا»[ مریم: ۱۵ ]”اور سلام اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جائے گا۔ “ اور فرمایا: «وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ»[ الأنبیاء: ۳۰ ]”اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔“ اور فرمایا: «يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ»[ الروم: ۱۹ ]”وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔“ یہاں دیکھیے ” هُوَ الْحَيِّ “(صرف وہ زندہ ہے) کہنے کے باوجود مخلوق کی حیات کا بھی ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی اور کامل حیات صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق کو بھی اس کے حسبِ حال ایک طرح کی حیات حاصل ہے، مگر خالق و مخلوق کی حیات میں اتنی ہی منافات ہے جتنی دونوں کی ذات میں ہے، خالق والی حیات کا ایک شمّہ بھی مخلوق کو حاصل نہیں۔
دوسری صفت قدرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت خود بیان فرمائی ہے، فرمایا: «وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» [البقرۃ: ۲۸۴ ]”اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ مخلوق کے متعلق بھی یہ لفظ استعمال فرمایا: «اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ» [ المائدۃ: ۳۴ ]”مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ “ اللہ تعالیٰ کی قدرت حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہے، جبکہ مخلوق کی قدرت صرف اس کے حسبِ حال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مخلوق کی قدرت میں اتنی منافات ہے جتنی دونوں کی ذات میں ہے۔
تیسری صفت ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا: «فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ» [ ھود: ۱۰۷ ]”کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے۔ “ اور فرمایا: «اِنَّمَااَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ» [ یٰسٓ: ۸۲ ]”اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ”ہو جا“ تو وہ ہو جاتی ہے۔“ اور فرمایا: «يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ» [البقرۃ: ۱۸۵ ]”اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔“ اور دوسری آیات۔ مخلوق کے ارادے کا بھی ذکر کیا، فرمایا: «تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا» [ الأنفال: ۶۷ ]”تم دنیا کا سامان چاہتے ہو۔“ اور فرمایا: «اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا» [ الاحزاب: ۱۳ ]”وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔ “ اور فرمایا: «يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ»[ الصف: ۸ ]”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ “ اور دوسری آیات۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا ارادہ حقیقی، کامل اور اس کی ذات کے لائق ہے، جبکہ مخلوق کا ارادہ اس کے حسبِ حال ہے۔ دونوں کے ارادوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دونوں کی ذات میں ہے۔
چوتھی صفت علم ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا: «وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ»[ البقرۃ: ۲۸۲ ]”اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔“ اور فرمایا: «لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ» [ النساء: ۱۶۶ ]”لیکن اللہ شہادت دیتا ہے اس کے متعلق جو اس نے تیری طرف نازل کیا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔“ اور مخلوق کے متعلق فرمایا: «وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ»[ یوسف: ۶۸ ]”اور بلاشبہ وہ یقینا بڑے علم والا تھا، اس وجہ سے کہ ہم نے اسے سکھایا تھا۔“ اور اس جیسی آیات۔ تو اللہ تعالیٰ کا علم کامل، حقیقی اور اس کے کمال و جلال کے لائق ہے، جب کہ مخلوق کا علم اس کے حال کے مناسب ہے۔ خالق و مخلوق کے علم میں اتنی ہی منافات ہے جتنی خالق و مخلوق کی ذات میں ہے۔
پانچویں اور چھٹی صفت سمع و بصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» [ الشورٰی: ۱۱ ]”اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ اور فرمایا: «وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ» [ الحج: ۶۱ ]”اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ اور مخلوق کے متعلق فرمایا: «اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا»[ الدھر: ۲ ]”بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔“ اور فرمایا: «اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ يَوْمَ يَاْتُوْنَنَا» [ مریم: ۳۸ ]”کس قدر سننے والے ہوں گے وہ اور کس قدر دیکھنے والے، جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے۔“ اور اس جیسی آیات۔ تو اللہ عز و جل کے سمع و بصر حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہیں اور مخلوق کے سمع و بصر ان کے حال کے مناسب ہیں۔ جس طرح خالق و مخلوق کی ذات میں کوئی مماثلت نہیں، ان کے سمع و بصر میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔
ساتویں صفت کلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا: «وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا»[ النساء: ۱۶۴ ]”اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ “ اور فرمایا: «اِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَ بِكَلَامِيْ» [الأعراف: ۱۴۴ ]”بے شک میں نے تجھے اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر چن لیا ہے۔“ اور فرمایا: «فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ»[ التوبۃ: ۶ ]”تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔“ اور مخلوق کے متعلق فرمایا: «فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ» [یوسف: ۵۴ ]”پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحبِ اقتدار، امانت دار ہے۔ “ اور فرمایا: «اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَيْدِيْهِمْ»[ یٰسٓ: ۶۵ ]”آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے۔“ اور فرمایا: «قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا» [ مریم: ۲۹ ]”انھوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ کا کلام حقیقی، کامل اور اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق کی صفت بھی کلام ہے جو اس کے حسبِ حال ہے اور خالق و مخلوق کے کلام میں اتنی ہی منافات ہے جتنی ان دونوں کی ذات میں ہے۔ اہلِ علم یہ بحث تفصیل سے پڑھنا چاہیں تو مفسر شنقیطی کی” أَضْوَاءُ الْبَيَانِ “ میں سورہ اعراف کی آیت (۵۴): «ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ» کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
تعجب ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات بڑے بڑے مفسر اور مصنف نہیں سمجھ سکے۔ وہ جہاں ”استوى على الْعرش“ کا لفظ آئے گا اس کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے اس سے مراد حکومت کرنا ہے، سمع و بصر آئے گا تو کہیں گے اس سے مراد علم ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت، رضا، غضب، انتقام، اس کے نزول اور دوسری صفات کا مطلب کچھ اور ہی بیان کرتے ہوئے اصل صفات کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ سلف صالحین اور محدثین ہی اس مقام پر سلامت رہے ہیں، ان کی ترجمانی امام مالک رحمہ اللہ نے فرمائی، جب ان سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ” اَلْإِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ وَالْكَيْفُ مَجْهُوْلٌ وَالسُّؤَالُ عَنْهُ بِدْعَةٌ “”اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے اور یہ بات کہ کیسے مستوی ہے، کسی کو معلوم نہیں اور یہ پوچھنا کہ کیسے مستوی ہے بدعت ہے۔“ بالکل اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع ہے، بصیر ہے، اس کے ہاتھ ہیں، آنکھیں ہیں، چہرہ ہے، وہ محبت کرتا ہے، ناراض ہوتا ہے، کلام کرتا ہے، ہنستا ہے، اترتا ہے اور قیامت کے دن زمین پر آئے گا، مگر ہمیں ان صفات کی کیفیت معلوم نہیں، نہ ہم عاجز مخلوق اس بے نہایت خالق کی ذات یا صفات کی حقیقت یا کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم اس کی ان تمام صفات کو انھی الفاظ و معانی میں مانتے ہیں جو خود اس نے یا اس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں اور ان تمام لوگوں کی باتوں سے بری ہونے کا اعلان کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات نہیں ہیں، یا کہتے ہیں کہ مخلوق جیسی ہیں، یا کہتے ہیں کہ ہمیں ان صفات کے معنی ہی کا علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق پر استقامت عطا فرمائے۔ (آمین)