(آیت 9) اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ …: پچھلی آیت میں جو فرمایا کہ ظالموں کے لیے نہ ولی (دوست) ہے نہ کوئی مددگار، یہ اس کی تفصیل ہے کہ آیا انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر کوئی اولیاء، کارساز اور دوست بنا رکھے ہیں۔ سو اصل دوست جو فی الواقع کارسازی اور مدد کر سکتا ہے وہ تو صرف اللہ ہے۔ ساتھ ہی اس کی دو زبردست دلیلیں بیان فرمائیں کہ وہی مردوں کو زندگی بخشتا ہے اور بخشے گا اور وہی ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، کیونکہ اس کا حق وہی رکھتا ہے جس میں یہ صفات ہوں۔ پھر اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ ایسی ہستیوں کو اولیاء اور کارساز بنا لیا جائے جو کسی کو زندگی بخشنا تو درکنار خود مرنے والے ہیں، فرمایا: «اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ» [ النحل: ۲۱ ]”مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے۔ “ ہر چیز پر قدرت تو بہت دور، ایک ذرّے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دیکھیے سورۂ سبا (۲۲)۔