(آیت 6) ➊ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ اللّٰهُ …: اس جملے میں مشرکین کے لیے بہت شدید ڈانٹ اور دھمکی ہے کہ اوپر آیات میں جس اللہ کا ذکر ہوا، جو عزیز و حکیم اور علیّ و عظیم ہے، جس کی ہیبت سے آسمان پھٹنے کے قریب رہتے ہیں اور جس کی تسبیح و حمد تمام فرشتے کرتے ہیں، جن لوگوں نے اس اللہ کے سوا کسی قسم کے کارساز بنائے، جو ان کے خیال میں فوق الفطرت طریقے سے ان کی حاجتیں و مرادیں بر لاتے اور ان کی دستگیری و فریاد رسی کرتے ہیں، ان کے ایک ایک عمل کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، وہ سب اس کے پاس محفوظ ہیں اور بہت جلد وہ انھیں ان کا بدلا دے گا۔
➋ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ: ” مَا“ نافیہ کی تاکید ” بِوَكِيْلٍ “ کی باء کے ساتھ ہو رہی ہے اور ” بِوَكِيْلٍ “ کی تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”تو ہر گز ان کا کوئی ذمہ دار نہیں“ کیا گیا ہے۔ ” وَكَلَ يَكِلُ“(ض) سپرد کرنا۔ ”وَكِيْلٌ“ جس کے سپرد کوئی کام کر دیا جائے، ذمہ دار، یعنی ان کفار و مشرکین کی نگرانی اور ان کے اعمال کی جزا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، آپ انھیں ہدایت دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کو زیادہ پریشان یا غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِيْرٌ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ» [ ھود: ۱۲ ]”تو تو صرف ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ “ مزید دیکھیے سورۂ یونس (۹۹، ۱۰۰) اور سورۂ انعام (۳۵)۔