(آیت 53) ➊ سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ …: ” الْاٰفَاقِ “”أُفُقٌ“ کی جمع ہے، کنارے۔ دور وہ جگہ جہاں آسمان و زمین ملتے ہوئے نظر آتے ہیں، افق کہلاتی ہے۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک یہ کہ ” اَنَّهُ “ کی ضمیر سے مراد قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی ہم انھیں دنیا بھر میں اور خود ان میں اپنی ایسی نشانیاں دکھا دیں گے جن سے ثابت ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن حق ہے۔ نشانیوں سے مراد ظاہری اسباب کی قلت کے باوجود اسلام کی فتوحات ہیں۔ ” الْاٰفَاقِ “ سے مراد مکہ کے گرد و پیش میں اسلام کا غلبہ ہے جو بدر، احد، خندق اور دوسرے معرکوں کے ساتھ جزیرۂ عرب پر اور آخر کار پوری زمین کے مشرقی اور مغربی کناروں تک پھیل گیا اور ” اَنْفُسِهِمْ “ سے مراد مکہ کی فتح ہے جو بجائے خود اسلام کے حق ہونے کی بہت بڑی دلیل تھی، جس کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے۔ مطلب یہ کہ عنقریب جب گرد و پیش کے ممالک اور خود ان (قریش) پر فتوحات حاصل ہوں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اسلام کے عہد میں حاصل ہوئیں، تب انھیں یقین حاصل ہو گا کہ قرآن اور پیغمبر حق تھے اور یہ ناحق انھیں جھٹلاتے رہے۔
دوسری تفسیر یہ کہ ” اَنَّهُ “ کی ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے، مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کے دلائل پر غور کریں گے، جو تمام آفاق یعنی زمین و آسمان میں پائے جاتے ہیں، مثلاً سورج چاند، نباتات و جمادات و حیوانات وغیرہ اور جو خود ان کی ذات میں پائے جاتے ہیں، مثلاً نطفے سے لے کر پیدائش تک، پھر بچپن سے لے کر موت تک، پھر ان کے وجود کی حیرت انگیز بناوٹ پر، جن کے عجائبات کے متعلق ہر روز نئے سے نئے انکشافات ہوتے رہیں گے، تو انھیں یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔ پہلے مطلب کو ابن جریر طبری نے ترجیح دی ہے، جبکہ دوسرا مطلب بعض تابعین نے اختیار فرمایا ہے۔ دونوں مطلب بیک وقت بھی مراد ہو سکتے ہیں۔
➋ اَوَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ …: یعنی مسلمانوں کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ کفارِ قریش پر اور کل عالم پر کیسے ممکن ہے تو اسے کہو، کیا تمھارا رب یہ کام کرنے کے لیے اکیلا کافی نہیں؟ اس لیے کہ وہ اکیلا ہر چیز اور ہر کام کا نگران اور اس پر شاہد ہے، اسے کسی کی مدد یا مشورے کی کوئی حاجت نہیں۔