(آیت 47) ➊ اِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ: پچھلی آیت کے ضمن میں ہر نیک و بد عمل کی جزا کا ذکر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اکثر لوگ جزا کے بغیر فوت ہو جاتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ اس کا نام ہی ”یوم الدین“(جزا کا دن) ہے، کیونکہ اگر وہ نیک و بد کو جزا نہ دے تو یہ ظلم ہے، جب کہ وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں۔ کفار چونکہ قیامت قائم ہونے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے پوری طرح قادر ہونے کی بات کو دلیل کے ساتھ نہیں جھٹلا سکتے تھے، اس لیے انھوں نے جھٹلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ بار بار پوچھتے، قیامت کب ہو گی؟ گویا ان کی فرمائش پر وہ فوراً قائم نہ ہوئی تو کہہ سکیں گے کہ قیامت ہوتی تو آ جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ یعنی انسان، جن اور فرشتے، غرض جس کسی سے قیامت کے متعلق پوچھو وہ بے خبر ہو گا۔ کسی دوسرے سے پوچھنے کو کہے گا تو وہ بھی بے خبر ہو گا۔ پوچھتے پوچھتے سبھی جس کی طرف لوٹائیں گے کہ وہی بتا سکتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب بے خبر ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ نازعات (۴۲ تا ۴۴)، انعام (۵۹) اور سورۂ اعراف (۱۸۷) جبریل علیہ السلام نے انسانی شکل میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب ہو گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ][بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۵۰ ]”جس سے اس کے متعلق پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ مطلب یہ ہے کہ تم جس بات کے پیچھے پڑے ہو تمھیں اس سے کچھ حاصل نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم ہی نہیں، اس لیے تم یہ فکر کرو کہ اس دن تمھارا بنے گا کیا اور تم نے اس کے لیے تیاری کیا کی ہے؟
➋ وَ مَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا: ”أَكْمَامٌ“”كِمٌّ“(کاف کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، وہ غلاف یا پردہ جس کے اندر شروع میں پھل چھپا ہوتا ہے۔ ” ثَمَرٰتٍ “ جمع ہے اور نکرہ ہے، اس پر ” مِنْ “ آنے سے عموم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے ”کسی قسم کے پھل اپنے غلافوں سے نہیں نکلتے۔“ مطلب یہ ہے کہ صرف قیامت کا علم ہی نہیں، غیب کے متعلق جتنے بھی امور ہیں ان سب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی نبی، ولی یا فرشتے کو غیب کے معاملات کا علم اسی حد تک ہو سکتا ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۵۹) اور سورۂ اعراف (۱۸۷)۔
➌ وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ: دیکھیے سورۂ رعد (۸) اور سورۂ فاطر (۱۱)۔ یعنی قیامت کے علاوہ کسی پھل کے اپنے غلاف سے نکلنے یا کسی مادہ کے حاملہ ہونے یا بچہ جننے کے وقت کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، تو کیا آج تک تم نے اس وجہ سے کسی پھل کے اپنے غلاف سے نکلنے یا کسی مادہ کے حاملہ ہونے یا بچہ جننے سے اور دوسری بے شمار چیزوں کے واقع ہونے سے اس لیے انکار کیا ہے کہ اس کا متعین وقت تمھیں نہیں بتایا گیا، تو قیامت کا انکار صرف اس لیے کیوں کہ تمھیں اس کے برپا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا!؟
➍ وَ يَوْمَ يُنَادِيْهِمْ اَيْنَ شُرَكَآءِيْ: ” يَوْمَ “ فعل محذوف ”اُذْكُرْ“ کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن یاد کرو جب اللہ تعالیٰ مشرکین کو پکار کر کہے گا کہاں ہیں میرے شریک؟ ” شُرَكَآءِيْ “(میرے شریک) سے مراد وہ ہیں جو انھوں نے بنا رکھے تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کا شریک کون ہو سکتا ہے!؟ اللہ تعالیٰ کا انھیں یہ کہنا صرف انھیں ذلیل کرنے کے لیے ہو گا، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں جسے وہ لے آئیں گے۔
➎ قَالُوْۤا اٰذَنّٰكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيْدٍ: یعنی وہ اپنے مشرک ہونے کا انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تجھے صاف بتا دیا ہے کہ ہم میں سے کوئی اس کی شہادت دینے والا نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے، یعنی ہم نے تیرے ساتھ کبھی شرک کیا ہی نہیں۔ (دیکھیے انعام: ۲۲ تا ۲۴) حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ کبھی اپنے مشرک ہونے سے انکار کریں گے، کبھی بے اختیار اس کا اقرار کریں گے، پھر انکار کریں گے۔ (دیکھیے مومن: ۷۳، ۷۴) پھر شہادتیں پیش ہونے پر اقرار کے سوا کچھ چارہ نہ ہو گا۔