(آیت 42) ➊ لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ: اس کے پاس نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ باطل آ کر اس پر غلبہ نہیں پا سکتا، یعنی باطل کی مجال نہیں کہ کسی پہلو سے آ کر اس پر غلبہ پا سکے، نہ کھلم کھلا سامنے آ کر اور نہ چوری چھپے پیچھے سے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ پہلے کی کوئی کتاب یا تحقیق اس قرآن کی کسی بات کو غلط یا باطل ثابت نہیں کر سکتی اور نہ ہی بعد کی کوئی کتاب یا تحقیق اس کی کسی بات کو غلط ثابت کر سکے گی، اور یہ مطلب بھی ہے کہ اس میں باطل کی آمیزش نہ کوئی کھلم کھلا کر سکتا ہے نہ چوری چھپے، جیسا پہلی کتابوں کے ساتھ ہوا، بلکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، فرمایا: «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ»[ الحجر: ۹ ]”بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔“
➋ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ: قرآن مجید کی کوئی بات غلط نہیں ہو سکتی، اس میں کسی باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی اور نہ ہی دلیل میں باطل کسی طرح اس پر غالب آ سکتا ہے، کیونکہ یہ حکیم و حمید کی طرف سے تنزیل ہے۔ ” تَنْزِيْلٌ “ کے مفہوم کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۰۶)۔ یعنی یہ کتاب اس نے تھوڑی تھوڑی کر کے نازل فرمائی ہے جو کمال حکمت والا ہے، ہر تعریف کا مستحق اور ہر خوبی کا مالک ہے۔ ” حَكِيْمٍ “ وہ جس کی کسی تدبیر میں خطا نہ ہو اور” حَمِيْدٍ “ وہ جس کے کسی فعل کی مذمت نہ ہو سکے۔