(آیت 38) ➊ فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا:”پھر اگر وہ تکبر کریں“ یعنی یہ سب کچھ سن کر بھی اگر وہ اپنی بات چھوڑنے کو ذلت سمجھیں، سورج، چاند اور مخلوق کو سجدہ کرنے پر اڑے رہیں اور اپنی جھوٹی عزت اور بڑائی کی وجہ سے جہالت اور شرک پر اصرار کرتے چلے جائیں۔
➋ یعنی اگر مشرکین اس قدر مغرور اور متکبر ہو گئے ہیں کہ اکیلے اللہ کو سجدہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں۔ اس کی عظمت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ مقرب ترین فرشتے جو اس کے پاس ہیں، اس کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں، یا عرش کے اردگرد یا اس کے نیچے عاجزی سے کھڑے ہیں۔ (دیکھیے مومن: ۷) جن کے ذریعے سے ساری کائنات کے معاملات کی تدبیر ہو رہی ہے۔ وہ سب دن رات اس کی تسبیح کر رہے ہیں، یعنی اس بات کی شہادت دے رہے ہیں اور اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا مالک اس سے پاک ہے کہ اس کے رب ہونے میں یا اس کے معبود برحق ہونے میں کوئی اس کا شریک ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۱۹، ۲۰) اور سورۂ اعراف (۲۰۶)۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں سمجھتے اور ساری کائنات کی شہادت کو رد کرکے اپنی عزت اور بڑائی کے جھوٹے گمان پر اڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کریں گے، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے۔
➌ جو لوگ عرشِ الٰہی کے منکر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو کائنات سے الگ سب سے بلندی پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ کائنات کے اندر ہے نہ اس سے باہر، وہ لفظ ” فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ “(وہ فرشتے جو تیرے رب کے پاس ہیں) کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رب تعالیٰ کے ہاں بڑا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ، مگر رحمن کے عرش کو فرشتوں کے اٹھائے ہونے کے صریح الفاظ ان کی ایسی تمام تاویلوں کا تار و پود بکھیر دیتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مومن (۷) اور سورۂ حاقہ (۱۷)۔