(آیت 30) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا …: کفار کے برے عقیدہ و عمل کی وجہ سے ان پر جن و انس کے شیاطین مسلط کرنے اور ان کے برے انجام کے ذکر کے بعد ایمان اور اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کی تائید و نصرت کے لیے فرشتے نازل کرنے کا اور ان کے حسن انجام کا ذکر فرمایا۔
➋ رَبُّنَا اللّٰهُ:”ہمارا رب صرف اللہ ہے“ یہ مختصر سا جملہ معانی کا سمندر ہے۔ مبتدا کے بعد خبر معرفہ ہو تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے، کتبِ بلاغت میں اس کی مشہور مثال ”صَدِيْقِيْ زَيْدٌ“ ہے، یعنی ”میرا دوست صرف زید ہے۔“ اس لیے ” رَبُّنَا اللّٰهُ “ کا معنی ہے ”ہمارا رب صرف اللہ ہے۔“ یہ بات دل سے کہہ لینے کے بعد آدمی کسی اور کو داتا، دستگیر، گنج بخش، غریب نواز، بگڑی بنانے والا اور ڈوبتوں کو پار لگانے والا نہیں مان سکتا۔ پھر اس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، بلکہ پوری زندگی اور موت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے، وہ صرف اسی سے مانگتا اور اسی کے حکم پر چلتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ عمل میں کوتاہی ہو سکتی ہے اور گناہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ اسی کے دروازے پر رہتا اور اسی سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (161) قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (162) لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (163) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ» [ الأنعام: ۱۶۱ تا ۱۶۴ ]”کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر دی ہے، جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔“
” رَبُّنَا اللّٰهُ “ کہنے کے بعد کسی اور کی عبادت، اس کا دین یا اس کا بتایا ہوا زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ہے:
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
”جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں ”لا الٰه “ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔“
➌ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا: اس میں سین اور تاء مبالغے کے لیے ہے، یعنی پھر اس پر خوب قائم رہے اور موت تک ڈٹے رہے، کوئی خوف یا لالچ انھیں اس عقیدے اور عمل سے نہ پھیر سکا، جیسا کہ فرمایا: «وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ»[الحجر: ۹۹ ]”اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آ جائے۔“
طبری نے اسود بن ہلال سے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا» اور فرمایا: ”اس آیت کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: [ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا مِنْ ذَنْبٍ ]”انھوں نے ” رَبُّنَا اللّٰهُ “ کہا، پھر گناہ سے بچنے پر ڈٹے رہے۔“ تو انھوں نے فرمایا: [ لَقَدْ حَمَلْتُمُوْهُ عَلٰی غَيْرِ الْمَحْمَلِ، قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ثُمَّ لَمْ يَلْتَفِتُوْا إِلٰی إِلٰهٍ غَيْرِهِ ][ طبري: ۳۰۷۷۰ ]”تم نے اسے اس کے اصل محمل کے غیر پر محمول کیا ہے، مقصد ” قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “ کا یہ ہے کہ پھر انھوں نے اس کے سوا کسی اور معبود کی طرف جھانک کر نہیں دیکھا۔“ حاکم نے بھی اسے اسود بن ہلال کے طریق سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ دیکھیے مستدرک حاکم میں ”سورۂ حم السجدہ“ کی تفسیر۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: ”قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا عَلٰی أَدَاءِ فَرَائِضِهِ “ یعنی ” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے فرائض کی ادائیگی پر خوب قائم رہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت تک توحید پر خوب قائم رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے رہے اور فرائض ادا کرتے رہے، اگر کوئی کوتاہی یا گناہ ہوا بھی ہو تو انھوں نے توحید و سنت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
➍ سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! حَدِّثْنِيْ بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ قُلْ رَبِّيَ اللّٰهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ؟ قَالَ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ هٰذَا ][مسند أحمد: 413/3، ح: ۱۵۴۲۵ ]”یا رسول اللہ! آپ مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میرا رب صرف اللہ ہے، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ! سب سے خوف ناک چیز جس سے آپ میرے بارے میں ڈرتے ہوں، کیا ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: ”یہ (زبان)۔“ مسند احمد کے محقق حضرات نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے، سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قُلْ لِّيْ فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ، وَ فِيْ حَدِيْثِ أَبِيْ أُسَامَةَ غَيْرَكَ، قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ][ مسلم، الإیمان، باب جامع أوصاف الإسلام: ۳۸ ]”یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتا دیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ اس سے معلوم ہوا کہ ” رَبِّيَ اللّٰهُ “ اور ” آمَنْتُ بِاللّٰهِ“ کا مفہوم ایک ہے اور یہ جامع کلمہ ہے، جس میں اسلام کے تمام ارکان آ گئے ہیں، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کے صحیح مسلم پر باب کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
➎ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ …: ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو۔ بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ ” رَبُّنَا اللّٰهُ “ کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول موت کے وقت ہوتا ہے، پھر قبر میں اور آخر میں حشر کے دن ہو گا، حالانکہ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ ان حضرات کی اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایمان والوں پر فرشتوں کا نزول نظر نہیں آتا، وہ موت کے وقت نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ وہ نظر نہیں آتے، مگر یقینا دنیا میں بھی اہلِ استقامت پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، جس سے ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے، ایمان اور میدان میں انھیں استقامت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کے دلوں میں نیکی کی رغبت، برائی سے نفرت اور بہترین خیالات پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں، جیسا کہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، فرمایا: «اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ (9) وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» [ الأنفال: ۹، ۱۰ ]”جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمھارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اور فرمایا: «اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ»[ الأنفال: ۱۲ ]”جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔“
فرشتے ایمان والوں پر اترتے ہیں مگر ایک آدھ استثنائی صورت کے علاوہ رسول کے سوا کسی کو نظر نہیں آتے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہو جاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ البتہ مرنے کے ساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو فرشتے موت کے وقت، پھر قبر میں، پھر قیامت میں ہر جگہ یقینا انسانوں کو نظر آئیں گے اور ایمان والوں کو ان الفاظ میں تسلی دیں گے جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ دنیا میں اگر فرشتے نظر آنا شروع ہو جائیں تو امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اس لیے یہاں وہ اسی وقت عام لوگوں کو نظر آتے ہیں جب وہ عذاب لے کر آتے ہیں اور امتحان کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۸) کی تفسیر۔
فرشتوں کا ایمان والوں پر اترنا ایسے ہی ہے جیسے کفار اور خبیث لوگوں پر شیاطین کا نزول ہے کہ وہ ان کے دلوں میں گندے خیالات اور فاسد عقائد ڈالتے اور برائی پر ابھارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ (221) تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ (222) يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ» [ الشعراء: ۲۲۱ تا ۲۲۳ ]”کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گناہ گار پر اترتے ہیں۔ وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ۠ لِيُجَادِلُوْكُمْ» [ الأنعام: ۱۲۱ ]”اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔“ اور فرمایا: «وَ اِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّيْ جَارٌ لَّكُمْ»[ الأنفال: ۴۸ ]” اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقینا میں تمھارا حمایتی ہوں۔“
➏ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا: مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: ”یعنی جب فرشتے ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انھیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جا رہے ہیں ان پر رنج نہ کرو، کیونکہ اللہ نے تمھارے لیے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں۔ اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں، اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات سمجھتا بھی ہے، تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو اس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ جنت تمھاری منتظر ہے اور دنیا میں جنھیں تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم تمھارے ولی اور رفیق ہیں۔“(تیسیر القرآن)
➐ دنیا میں انسانوں کے ساتھ کئی طرح کے فرشتے مقرر ہیں، جن میں کراماً کاتبین بھی ہیں (دیکھیے انفطار: ۱۰ تا ۱۲) اور آفات و مصائب سے حفاظت کرنے والے فرشتے بھی۔ (دیکھیے رعد: ۱۱) یہ فرشتے مومن و کافر سب کے ساتھ ہیں، مگر جن فرشتوں کا ان آیات میں ذکر ہے یہ صرف اہلِ ایمان و استقامت کے ساتھ خاص ہیں، انھی پر اترتے ہیں اور انھی کو حوصلہ دیتے، نیکیوں کی رغبت دلاتے اور خیر کا الہام کرتے ہیں۔