(آیت 26) ➊ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا …: کفار قرآن کی تاثیر سے واقف تھے کہ جو شخص عناد سے خالی ہو کر اسے سن لے وہ یقینا اس سے متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ نہ خود قرآن سنو، نہ کسی کو سننے دو۔ یہ ان کا واضح اعترافِ شکست تھا، وہ اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر نہ لا سکے تو حق یہ تھا کہ اس پر ایمان لے آتے، مگر وہ اس کی مخالفت پر ڈٹ گئے اور ہر طریقے سے لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش کرنے لگے۔
➋ لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ: یعنی پہلی کتابیں پڑھنے سننے پر کوئی پابندی نہیں، کیونکہ اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ قرآن جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لے کر آئے ہیں، یہ مت سنو، کیونکہ یہ دلوں کو کھینچتا ہے۔
➌ وَ الْغَوْا فِيْهِ: ” الْغَوْا “”لَغِيَ يَلْغٰي“(س، ف) بغیر سوچے سمجھے بولنا، شور مچانا۔ یعنی اگر کبھی سننے کا اتفاق ہو تو اس میں شور ڈال دو، تاکہ تم غالب رہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ مان رہے تھے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمان قرآن سنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہی غالب رہیں گے۔ عربی مقولہ ہے: ” وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ “”اصل برتری وہ ہے جس کی شہادت دشمن دیں۔“ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس بات کے برعکس فرمایا: «وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ» [ الأعراف: ۲۰۴ ]”اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی جعلی غلبے کے بجائے حقیقی رحمت کے طلب گار بنو۔
➍ کفار کی یہ بدتمیزی صرف اس وقت نہیں تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن سنانے کی کوشش کرتے، بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قرآن سنا رہے ہوتے، یا انھیں نماز پڑھاتے ہوئے بلند آواز سے قراء ت کرتے تو وہ اس وقت بھی بدزبانی اور گالی گلوچ شروع کر دیتے، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا»[ بني إسرائیل: ۱۱۰ ]”اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔“ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی اسی آیت کی تفسیر۔