(آیت 8) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ …:” مَمْنُوْنٍ “”مَنَّ يَمُنُّ مَنًّا “(ن)” الْحَبْلَ“ رسی کو کاٹ دینا۔ کفار کے ساتھ ہی ایمان اور عمل صالح والوں کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی قطع نہیں کیا جائے گا۔ مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں جو کبھی ختم یا کم ہونے والی نہیں، بلکہ دائمی اور ہر دن زیادہ ہونے والی ہیں، جیسا کہ فرمایا: «لَا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍ» [ الواقعۃ: ۳۳ ]”(جنت کے پھل) نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے کوئی روک ٹوک ہو گی۔“ اور فرمایا: «عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ»[ ھود: ۱۰۸ ]”ایسا عطیہ جو قطع کیا جانے والا نہیں۔“ اور فرمایا: «اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ» [ صٓ: ۵۴ ]”بلاشبہ یقینا یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔“
بعض مفسرین نے اس لفظ کو ”مَنَّ يَمُنُّ مَنًّا“(احسان جتانا) سے قرار دے کر مطلب یہ کیا ہے کہ جنت کی نعمتوں کا ان پر احسان نہیں جتایا جائے گا۔ مگر ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ معنی درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو احسان جتلاتا ہے اور جتلائے گا اور یہ اس کا حق ہے، کیونکہ ایمان کی ہدایت اور توفیق اس نے عطا فرمائی، فرمایا: «بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ» [ الحجرات: ۱۷ ]”کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمھیں ایمان کے لیے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔“ اور جنتی کہیں گے: «فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ» [الطور: ۲۷ ]”پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں زہریلی لو کے عذاب سے بچا لیا۔“