(آیت 7،6) ➊ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ: یعنی مجھ سے تمھاری اس قدر دوری کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ نہ تو میں فرشتہ یا جن یا نظر نہ آنے والی کوئی اور مخلوق ہوں کہ میرے اور تمھارے درمیان کوئی پردہ ہو، جس کی وجہ سے تم مجھے دیکھ نہ سکو یا میری بات سن نہ سکو، بلکہ میں ایک بشر ہی ہوں جو تم میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور نبوت سے سرفراز ہوا۔ نہ یہ بات ہے کہ میری زبان تم سے مختلف ہے، بلکہ تمھاری طرح عرب ہوں، کھانے پینے، سونے جاگنے، تندرستی، بیماری، شادی، غمی اور آل اولاد، غرض تمام انسانی صفات میں تمھارے جیسا ہوں، پھر مجھ سے یہ اجتناب اور ایسی دوری کیوں؟
➋ يُوْحٰۤى اِلَيَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: دوری کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میں اپنی کوئی ذاتی بات تمھارے سامنے پیش کرکے اسے منوانا چاہتا ہوں۔ ایسا بھی نہیں، بلکہ میں تو تمھارے پاس وحی الٰہی کی بات لے کر آیا ہوں اور یہی میرا امتیاز ہے، اور یہ بھی نہیں کہ وہ وحی الٰہی کوئی پیچیدہ یا عقل میں نہ آنے والی بات ہو، یا اس کے تم سے بے شمار مطالبات ہوں جنھیں پورا کرنے سے تم قاصر ہو، بلکہ وہ صاف، سچی اور عقل کے عین مطابق ہے اور وہ ہے صرف ایک مختصر سی بات کہ تمھاری عبادت کا حق دار صرف ایک معبود ہے۔ ایسی واضح اور مختصر بات نہ سننے یا نہ سمجھنے کا اور اس کے کہنے والے کو نہ دیکھنے کا تمھارے پاس کوئی عذر نہیں، تمھیں روکنے والی چیز صرف تمھارا کفر پر اصرار ہے۔ سو اسے چھوڑو، تاکہ تم بھی وہ حقیقت سمجھ سکو جو تمھارے جیسا ایک بشر ہو کر میں سمجھتا ہوں اور تمھیں سمجھا رہا ہوں، لہٰذا اپنا رخ اپنے واحد معبود کی طرف بالکل سیدھا کر لو۔
➌ فَاسْتَقِيْمُوْۤا اِلَيْهِ: استقامت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۱۱۲)۔ یعنی جب تمھاری عبادت کا حق دار صرف ایک معبود ہے تو تمام معبودان باطلہ سے منہ پھیر کر اپنا رخ پوری طرح اس کی طرف سیدھا کر لو اور صرف اسی کی عبادت کرو، جیسا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے کہا تھا: «اِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ»[ الأنعام: ۷۹ ]”بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں۔“
➍ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ: یعنی اس سے پہلے اس کی جو ناشکری اور اس کے ساتھ شرک کرتے رہے ہو اس کی اس سے معافی مانگو اور اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی پہلے ہوئی یا آئندہ ہو گی سب کی بخشش کی دعا کرتے رہو۔
➎ آیت کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے یہ بقاعی اور کچھ اور مفسرین کے مطابق ہے۔ ایک اور تفسیر یہ ہے: ”میں تو تمھارے جیسا ایک انسان ہوں، تمھارے کانوں اور آنکھوں کو کھولنا اور دلوں کے پردے دور کرنا نہ میرے اختیار میں ہے اور نہ ہی میں اس کا مکلف ہوں، میری ذمہ داری وہ وحی الٰہی تم تک پہنچا دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے میری طرف کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمھارا سچا معبود بس ایک ہے۔ سو اس کی طرف پوری طرح سیدھے ہو جاؤ اور اپنی گزشتہ اور موجودہ نافرمانیوں اور لغزشوں کی اس سے معافی مانگو۔“(ابن عاشور) یہ تفسیر بھی بہت عمدہ ہے۔
➏ وَ وَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِيْنَ (6) الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ: یعنی جو لوگ اللہ واحد اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے بہت بڑی ہلاکت ہے۔ اگرچہ ان کی ہلاکت کے بے شمار اسباب ہیں، مگر یہاں ان میں سے تین بنیادی اسباب ذکر فرمائے، کیوں کہ سعادت کے بنیادی اسباب بھی تین ہیں، یعنی اللہ کا حق ادا کرنا، مخلوق کا حق ادا کرنا اور آخرت کا یقین رکھ کر اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے تیاری رکھنا۔ جس طرح سب سے اونچے اعمال یہ ہیں اسی طرح سب سے بڑی خست اور کمینگی بھی ان کا ادا نہ کرنا ہے۔ فرمایا، ان لوگوں کے لیے بہت بڑی ہلاکت ہے جو مشرک ہیں، اپنے مالک کے غدار ہیں، اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے عائد ہونے والا کم از کم فریضہ بھی ادا نہیں کرتے اور آخرت کے سرے ہی سے منکر ہیں، جس میں حساب ہو گا اور جس کے بعد زندگی دائمی اور ابدی ہے۔
➐ یہاں ایک سوال ہے کہ یہ سورت مکی ہے، جب کہ زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی۔ اس کے جواب میں بعض مفسرین نے فرمایا کہ زکوٰۃ کا لفظی معنی پاکیزگی ہے، اس لیے یہاں توحید کے اقرار کے ساتھ نفس کی پاکیزگی مراد ہے کہ مشرک کلمۂ توحید کے ساتھ اپنے آپ کو پاک نہیں کرتے۔ مگر اس میں یہ اشکال ہے کہ اگر آیت کے الفاظ ”لَا يَأْتُوْنَ الزَّكَاةَ“ ہوتے تو اس معنی کی گنجائش تھی، ” لَا يُؤْتُوْنَ “ میں اس کی گنجائش مشکل ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے ”وہ زکوٰۃ نہیں دیتے۔“ اس لیے طبری اور اکثر مفسرین رحمھم اللہ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے۔ رہا یہ سوال کہ مکہ میں تو زکوٰۃ فرض ہی نہیں ہوئی تھی، تو جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ زکوٰۃ کا نصاب اور دورانیہ مدینہ میں مقرر ہوا مگر اصل زکوٰۃ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ابتدائے اسلام ہی میں فرض تھا۔ ہرقل نے جب ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ نبی تمھیں کیا حکم دیتا ہے تو انھوں نے کہا تھا: [ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ][ بخاري، الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ، قبل ح: ۱۳۹۵ٰ، تعلیقاً ]”وہ نبی ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتا ہے۔“ اور ظاہر ہے کہ ابوسفیان نے وہی احکام ذکر کیے جو مکہ میں اس نے سنے۔ علاوہ ازیں مکی سورتوں میں جا بجا صدقے، زکوٰۃ اور کھیتی میں سے حق ادا کرنے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ»[ الأنعام: ۱۴۱ ]”اور اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کرو۔“ اور فرمایا: «وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى (17) الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى» [ اللیل: ۱۷، ۱۸ ]”اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔“ اور فرمایا: «وَ الَّذِيْنَ فِيْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۪ (24) لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ» [ المعارج: ۲۴،۲۵]”اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے اور (اس کے لیے) جسے نہیں دیا جاتا۔“ اور فرمایا: «وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ»[ المؤمنون: ۶۰ ]”اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقینا وہ اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔“ اور یہ تمام آیات مکی سورتوں کی ہیں۔ سورۂ مزمل ابتدا میں اترنے والی مکی سورت ہے، اس کی آخری آیت میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔
معلوم ہوا کہ کفار توحید و رسالت پر ایمان کے علاوہ زکوٰۃ اور دوسرے احکام پر عمل کے بھی مکلف ہیں اور ان کی عدم ادائیگی پر بھی ان کو عذاب ہو گا۔ رہی یہ بات کہ ان کی نماز اور زکوٰۃ تو ایمان لانے کے بعد ہی معتبر ہو گی، پہلے اس کا فائدہ ہی نہیں، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھیں نماز یا زکوٰۃ کا حکم نہیں، جیسا کہ نماز اسی وقت درست ہو گی جب وضو ہو گا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک وضو نہ ہو نماز کا حکم ہی نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مدثر (۳۹ تا ۴۸) کی تفسیر۔