(آیت 4) ➊ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا: یہ چوتھی اور پانچویں صفت ہے کہ یہ کتاب ایمان لانے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں بہترین انجام کی بشارت دیتی ہے اور جھٹلانے والوں کو دنیا اور آخرت کے بدترین انجام سے ڈراتی ہے۔
➋ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ: قرآن مجید کی صفات بیان کرنے کے بعد اس پر لوگوں کا رد عمل بیان فرمایا کہ ان میں سے اکثر نے منہ موڑ لیا، سو وہ سنتے ہی نہیں۔ اکثر سے مراد یہاں کفار ہیں۔ نہ سننے سے مراد یہ ہے کہ وہ سرے سے سنتے ہی نہیں، بلکہ مجلس سے اٹھ جاتے ہیں (دیکھیے ص: ۶) یا کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے ہیں اور کپڑے اوڑھ لیتے ہیں۔ (دیکھیے نوح: ۷) یا شور و غل ڈال کر نہ خود سنتے ہیں نہ کسی کو سننے دیتے ہیں، جیسا کہ اسی سورۂ حم السجدہ کی آیت (۲۶) میں ہے اور نہ سننے سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ اسے قبول نہیں کرتے، کیونکہ جب ماننا ہی نہیں تو سننا نہ سننا برابر ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ» [ الأعراف: ۱۷۹ ]”اور بلاشبہ یقینا ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ اور اسی سورت کی اگلی آیت: «وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَيْهِ وَ فِيْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَيْنِنَا وَ بَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ»[ حٰمٓ السجدۃ: ۵ ]” اور انھوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اور ہمارے کانوں میں ایک بوجھ ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے درمیان ایک حجاب ہے، پس تو عمل کر، بے شک ہم بھی عمل کرنے والے ہیں۔“
➌ قرآن مجید نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق فرمایا: «اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ» [ البقرۃ: ۱۰۰ ]” ان کے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔“ اور فرمایا: «اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ»[ الأنعام: ۳۷ ]” ان کے اکثر نہیں جانتے۔“ اور فرمایا: «اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ» [الأنعام: ۱۱۱ ]”ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ»[الأعراف: ۱۷ ]”اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔“ اور فرمایا: «وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ»[ الأعراف: ۱۰۲ ]”اور بے شک ہم نے ان کے اکثر کو فاسق ہی پایا۔“ اور فرمایا: «وَ مَا يَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا» [ یونس: ۳۶ ]”اور ان کے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر ایک گمان کی۔“ اور فرمایا: «وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ»[ یونس: ۶۰ ]”اور لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔“ اور فرمایا: «وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ»[ یوسف: ۱۰۶ ]”اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں۔“ اور فرمایا: «اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ»[ الشعراء: ۸ ]”بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔“ جب کہ ایمان والوں اور شکر گزار بندوں کے متعلق فرمایا کہ وہ بہت تھوڑے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِيْلٌ مَّا هُمْ» [ صٓ: ۲۴ ]”مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ»[ سبا: ۱۳ ]”اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔“ ان آیات سے کفار کے رائج کر دہ نظامِ جمہوریت کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے، جس کی بنیاد ہی عوام کی اکثریت پر ہے، وہ مسلم ہوں یا کافر، متقی ہوں یا فاسق۔ پھر اس اکثریت کو دستور اور قانون سازی کا بھی اختیار ہے، خواہ وہ اللہ کے دین کے مطابق ہو یا اس سے متصادم۔ اس لیے دنیا بھر کے کفار تمام مسلمان ملکوں میں جمہوریت رائج کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اسی کے ذریعے سے وہ ان ملکوںمیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو نافذ ہونے سے روک سکتے ہیں اور اپنا دخل جاری رکھ سکتے ہیں۔