(آیت 2) ➊ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ” تَنْزِيْلٌ “ کا معنی ”تھوڑا تھوڑا کرکے اتارنا“ ہے۔ قرآن مجید کو ایک ہی دفعہ نازل کرنے کے بجائے تیئیس (۲۳) برس میں نازل کرنے کی حکمتوں کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۰۶) کی تفسیر۔ ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کا مفہوم اور باہمی فرق سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں دیکھیے۔ کفار قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب نہیں مانتے تھے، بلکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود ساختہ کلام کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں یقین دلانے کے لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہے، اس بات کو متعدد مقامات پر مختلف انداز سے بیان فرمایا۔ پچھلی سورت میں یہ بات اپنی صفات ”عزيز و عليم“ کے ذکر کے ساتھ بیان فرمائی، یہاں ”رحمان و رحیم “ کے ساتھ ذکر فرمائی۔
➋ ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ساری مخلوق محتاج ہے، جس کی ہر ضرورت پوری کرنے والا رحمان و رحیم ہے۔ وہ سب ضعیف اور بیمار ہیں، ان کی غذا اور ہر ضرورت کا اہتمام اور ان کی بیماریوں اور کمزوریوں کا مداوا وہی کرتا ہے جو رحمان ہے، جس کی رحمت کی کوئی حد نہیں اور رحیم بھی ہے کہ اس کی رحمت دائمی ہے، جسے کبھی زوال نہیں۔ اس نے رحم کرتے ہوئے یہ کتاب نازل فرمائی ہے، تاکہ لوگ ضلالت کی تاریکیوں سے ہدایت کی روشنی میں آ جائیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس بہت بڑی ہلاکت سے بچ جائیں جو مشرکین کا مقدر ہے، جس کا ذکر آیت (۶) میں آ رہا ہے۔ کتاب کا اتارنا اس کی صفت رحمت کا اظہار ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۵۷) اور سورۂ عنکبوت (۵۱)۔