(آیت 75) ➊ ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ: ”فَرَحٌ“”خوشی سے پھول جانا“ یہ دل کی حالت کا نام ہے اور ”مَرَحٌ“”اكڑنا“ یہ اس خوشی کے نتیجے میں اعضائے بدن سے ظاہر ہونے والے تکبر کا نام ہے، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے: «وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا» [ بني إسرائیل: ۳۷ ]”اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔“ یعنی قیامت کے دن تمھاری اس ساری رسوائی اور عذاب کا باعث دنیا میں تمھارا اپنے پاس موجود نعمتوں اور اپنے دنیوی علوم پر پھول جانا، اکڑنا اور تکبر کرنا ہے، جیسا کہ آگے فرمایا: «فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ» [ المؤمن: ۸۳ ]” پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر پھول گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا۔“
➋ بِغَيْرِ الْحَقِّ: یعنی تم ناحق زمین میں خوشی سے پھولتے تھے۔” فِي الْاَرْضِ “ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ دنیا خوشی کا مقام نہیں، خوشی کا مقام صرف جنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَّةُ الْكَافِرِ ][مسلم، الزھد والرقائق: ۲۹۵۶ ]”دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔“ کافر اس میں اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کی جنت یہی ہے مگر اس کی یہ خوشی ناحق ہے، کیونکہ ناپائیدار چیز اس قابل نہیں کہ آدمی اس پر خوش ہو۔ اور تم ناحق اکڑتے اور بڑے بنتے تھے، حالانکہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، تمھارا یا کسی اور مخلوق کا حق نہیں۔ تمھارا حق اللہ کے سامنے عاجز ہونا اور اس کی آیات کے مقابلے میں جھگڑنے کے بجائے انھیں تسلیم کرنا تھا۔ پھر تم زمین پر رہ کر، جو پستی کی انتہا ہے، عرش والے کے سامنے اکڑتے تھے، جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں۔