(آیت 74،73) ➊ ثُمَّ قِيْلَ لَهُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ (73) مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: پھر انھیں ذلیل کرنے کے لیے اور ان کے خود ساختہ مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کی بے بسی واضح کرنے کے لیے ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا شریک بناتے تھے؟ اگر وہ واقعی شریک تھے اور تم اس لیے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ مشکل وقت میں تمھاری دستگیری کریں گے تو لاؤ، وہ کہاں ہیں، تمھاری مدد کیوں نہیں کر رہے؟
➋ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا: یہ انسانی ضمیر کا اصل سچ ہے، اس کے مطابق پہلے وہ بے اختیار اقرار کریں گے کہ وہ ہم سے گم ہو گئے، نہ کہیں ملتے ہیں نہ دکھائی دیتے ہیں۔
➌ بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْـًٔا: پھر یہ سوچیں گے کہ یہ کہنا کہ وہ ہم سے گم ہو گئے ہیں، یہ تو اعتراف ہے کہ واقعی ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارتے رہے ہیں اور ہمارا یہ اعتراف ہمارے خلاف شہادت بن رہا ہے۔ چنانچہ طبیعت کی کمینگی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے اسی قدم پر اس اعتراف سے پھر جائیں گے اور صاف جھوٹ بول دیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات تو ویسے ہی ہمارے منہ سے نکل گئی، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم کسی بھی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر دنیا میں اپنے شرک کرنے سے انکار کر دیں گے، فرمایا: «وَ يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ (22) ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ (23) اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ» [ الأنعام: ۲۲ تا ۲۴ ]”اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جنھوں نے شریک بنائے، کہاں ہیں تمھارے وہ شریک جنھیں تم گمان کرتے تھے۔ پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ کہیں گے اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ دیکھ انھوں نے کیسے اپنے آپ پر جھوٹ بولا اور ان سے گم ہوگیا جو وہ جھوٹ بنایا کرتے تھے۔“
➍ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِيْنَ: ایسے ہی اللہ کافروں کو گمراہ اور حواس باختہ کر دیتا ہے، ان کے منہ سے کبھی کچھ نکلتا ہے کبھی کچھ۔ وہ ایک بات کہتے ہیں پھر خود ہی اس سے مکر جاتے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ایک اور تفسیر کی ہے، وہ بھی بہت عمدہ ہے، فرماتے ہیں: ”اوّل منکر ہو چکے تھے کہ ہم نے شریک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاوے گا، پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا (پھسلا دیا، بھلا دیا) اپنی حکمت سے۔“(موضح) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے انھیں ان کے انکار سے پھسلا کر ان کے منہ سے شرک کرنے کا اقرار کروا لیا۔
➎ ایک تفسیر اس آیت کی یہ ہے کہ وہ پہلے کہیں گے کہ ہم جنھیں پکارتے تھے وہ ہم سے گم ہو گئے، پھر کہیں گے، اصل بات یہ ہے کہ ہم جنھیں پکارتے رہے وہ کوئی شے ہی نہ تھے، نہ کہیں ان کا وجود تھا، بلکہ ہم محض ”لَا شَيْءٌ “ کو اور اپنے وہم و گمان کو پوجتے اور پکارتے رہے ہیں۔ اگر فی الواقع ان کا وجود ہوتا تو آج وہ کہیں مل جاتے یا ہمارے کام آتے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ مَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ» [یونس: ۶۶ ]”اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔“ اور فرمایا: «اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ»[ النجم: ۲۳ ]”یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔“”لَا شَيْئٌ “ کی ایک اور مثال، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: «قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَيْءٍ حَتّٰى تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ» [ المائدۃ: ۶۸ ]”کہہ دے اے اہلِ کتاب! تم کسی چیز پر نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل کو قائم کرو اور اس کو جو تمھارے رب کی جانب سے تمھاری طرف نازل کیا گیا۔“