تفسير ابن كثير



باب

کہہ دے کہ رب العالمین کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے، استقامت اور دیانت داری کا ہے، برائیوں اور گندے کاموں کو چھوڑنے کا ہے، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے۔ جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو، اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا۔

اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے، اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا۔ دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا، آخرت میں بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا۔ پہلے تم کچھ نہیں تھے، اس نے تمہیں بنایا۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی، اسی طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا۔

چنانچہ حدیث میں بھی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا: لوگو! تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں، ننگے بدنوں، بےختنہ جمع کئے جاؤ گے۔ جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں۔ یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے۔ [صحیح بخاری:4625] ‏‏‏‏

یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے، ویسے ہی تم ہوؤ گے۔ ایک روایت میں ہے: جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے۔

یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے، وہ بدبختی اور بداعمالی کی طرف ہی لوٹے گا، گو درمیان میں نیک ہو گیا ہو۔ اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے، وہ انجام کار نیک ہی ہو گا، گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں گے۔

جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے۔

یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے، ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے۔

یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی۔ جیسے فرمان ہے «هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ» [64-التغابن:2] ‏‏‏‏ پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں۔

اسی قول کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے۔ پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے۔ [صحیح بخاری:6594] ‏‏‏‏

دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں۔ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔ [صحیح بخاری:6493] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے: ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر تھا۔ [صحیح مسلم:2878] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏مسلم)

ایک اور روایت میں ہے: جس پر مرا۔

اگر اس آیت سے مراد یہی لی جائے تو اس میں اس کے بعد فرمان «فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا» [30-الروم:30] ‏‏‏‏ میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ [صحیح بخاری:4775] ‏‏‏‏

اور صحیح مسلم کی حدیث میں فرمان باری ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا۔ پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏

اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کے لئے پیدا کیا۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھٹی میں رکھ دیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے مقدر کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بدبخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے۔

جیسے فرمان ہے: اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن۔

اور حدیث میں ہے: ہر شخص صبح کرتا ہے، پھر اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں۔ [صحیح مسلم:223] ‏‏‏‏ اللہ کی تقدیر، اللہ کی مخلوق میں جاری ہے، اسی نے مقدر کیا، اسی نے ہدایت کی، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دی، پھر رہنمائی کی۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں، ان پر نیکوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں، ان پر بدیاں آسان ہوں گی۔ [صحیح بخاری:1362] ‏‏‏‏

چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ایک فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی۔ پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے۔ اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تاوقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں، ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہیئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا۔ ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی۔ آیت آپ کے سامنے موجود ہے، پڑھ لیجئے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.