(آیت 65) ➊ هُوَ الْحَيُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: ” الْحَيُّ “ خبر پر الف لام نے کلام میں حصر کا مفہوم پیدا کر دیا ہے کہ وہی زندہ ہے، یعنی ہمیشہ سے زندہ اور ہمیشہ زندہ رہنے والا وہی ہے، تو عبادت کے لائق بھی وہی ہے۔ اس کے سوا سب موت کی وادی سے وجود میں آئے ہیں اور موت کی آغوش میں جانے والے ہیں۔ تو مرنے والے عبادت کے حق دار کیسے بن گئے؟ مزید دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ: ۲۵۵) اور سورۂ نحل (۲۱) کی تفسیر۔
➋ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ: تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۲۹) اور سورۂ مومن (۱۴)کی تفسیر۔
➌ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: یعنی جب یہ سب نعمتیں اس اکیلے کی عطا کردہ ہیں اور یہ سب اوصاف اور خوبیاں اس اکیلے میں پائی جاتی ہیں جو رب العالمین ہے، تو کسی اور کا حق نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے اور شکر ادا کرنے کے لیے اس کی عبادت کی جائے، بلکہ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جو رب العالمین ہے۔