(آیت 63)كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا …: اگرچہ ”إِفْكٌ“ کا معنی جھوٹ اور بہتان بھی ہے، مگر یہاں ” أَفَكَ يَأْفِكُ أَفْكًا“(ض)(ہمزہ کے فتح کے ساتھ) سے ہے، جس کا معنی ”پھیرنا“ہے، جیسا کہ سورۂ احقاف میں ہے: «قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ» [ الأحقاف: ۲۲ ]”انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا دے، سو ہم پر وہ(عذاب) لے آ جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔“” كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ “ میں ”كَانَ“ کی وجہ سے استمرار ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے: ”اللہ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔“”جَحَدَ يَجْحَدُ جُحُوْدًا“(ف) جاننے کے باوجود انکار کر دینا۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنے واضح دلائل کے باوجود آخر ان لوگوں کے حق سے انحراف کا اصل باعث کیا ہے اور یہ کہ ان سے پہلے بھی کسی نے یہ روش اختیار کی ہے یا یہ صرف انھی کا کام ہے؟ فرمایا، یہ لوگ ہی نہیں بلکہ ان سے پہلے وہ سب لوگ بھی انھی کی طرح حق سے پھیر دیے جاتے رہے ہیں جو علم کے باوجود اللہ کی آیات کا ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ تکبر و جحود ان کی بیماری ہے، یہی بیماری پہلوں کی بھی تھی۔ اب جو طے کر لے کہ اس نے ماننا ہی نہیں، اسے کون منوائے؟ جس طرح سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے، لیکن جو جاگتا ہونے کے باوجود آنکھیں بند کرنے پر ڈٹ جائے اسے کون جگائے؟