(آیت 62) ➊ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ: ” ذٰلِكُمْ “ اسم اشارہ بعید کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر یہاں قریب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قریب کے لیے اسم اشارہ بعید لا کر اس ذات کی عظمت و بلندی اور اس کے انسانی سوچ سے بے حساب بالاتر ہونے کا اظہار مقصود ہے اور ”ذٰلِكَ“ کے بجائے ” ذٰلِكُمْ“ کے استعمال کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف کی آیت (۳۲): «قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ» کی تفسیر۔
➋ خبر معرفہ ہو تو کلام میں حصر پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”یہی ہے اللہ تمھارا رب۔“ یہاں ” ذٰلِكُمْ“ مبتدا ہے، جس کے بعد چار خبریں ہیں، یعنی وہ جس کے متعلق تم نے ابھی سنا کہ وہ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا ہے، جو رات کو سکون کے لیے تاریک اور دن کو حرکت و عمل کے لیے روشن بنانے والا ہے، اسی کا نام اللہ ہے (جس میں تمام صفاتِ کمال جمع ہیں)، کوئی اور اللہ ہونے کا دعوے دار ہے تو لاؤ۔ زمین و آسمان اور لیل و نہار کو پیدا کرنے اور چلانے والے کے سوا کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ میں اللہ ہوں۔
➌ رَبُّكُمْ: یہی تمھارا رب ہے، تمھاری پرورش کرنے والا اور تمھیں ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے والا۔ اس کے علاوہ اور کوئی تمھارا رب نہیں۔
➍ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ: زمین و آسمان اور دن رات ہی کا نہیں بلکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کسی نے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ حج (۷۳، ۷۴)۔
➎ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: یہ چوتھی خبر ہے جو پہلے سارے کلام کا خلاصہ ہے کہ (یہ جو رات کو سکون والا اور دن کو روشن بنانے والا ہے)(1) یہی اللہ (تمام صفاتِ کمال کا جامع) ہے۔ (2) یہی رب ہے۔ (3) یہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (4) اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
➏ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ:” أَنّٰي“ اصل میں جگہ کے متعلق استفہام کے لیے آتا ہے، یعنی ”کہاں سے؟ کس جگہ سے؟“ مگر موقع محل کے مطابق کیفیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی ”کس طرح؟ کیسے؟“ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اکیلا مستحق عبادت اور پکارنے کے لائق ہونا ان دلائل کی روشنی میں بالکل واضح ہے، پھر وہ کون سا مقام ہے جہاں سے کسی نے تمھیں اس کی عبادت سے پھیر کر اس مخلوق کی عبادت اور اسے پکارنے کی طرف لگا دیا جس کا اپنا وجود اس کے اختیار میں نہیں؟ اور تم کس طرح اس واضح اور روشن راستے سے بھٹک کر شرک و ضلالت کے اندھیروں میں گم ہو رہے ہو؟