(آیت 61) ➊ اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ: ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان کرتے ہوئے توحید اور آخرت دونوں مضامین ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
➋ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا: اس جملے میں احتباک ہے، یعنی دو جملوں کا ایک ایک حصہ دوسرے جملے کے قرینے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے، جو کلام کے کمال جامعیت اور بلاغت کا آئینہ دار ہے۔ مفصل عبارت یوں تھی: ” اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ مُظْلِمًا لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا لِتَعْمَلُوْا فِيْهِ “ یعنی ”اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے رات کو تاریک بنا دیا، تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، تاکہ تم اس میں کام کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نعمت متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے یاد کروائی ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶۷)، فرقان (۴۷)، بنی اسرائیل (۱۲)، قصص (۷۱ تا ۷۳) اور لقمان (۲۹)۔
➌ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ: ” لَذُوْ فَضْلٍ “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو کچھ عطا فرمایا ہے (زمین و آسمان، رات، دن، سورج، چاند اور خود ان کا وجود وغیرہ) وہ ان کا اللہ پر کوئی حق یا قرض نہیں بلکہ محض اس کا فضل ہے اور فضل بھی بہت بڑا کہ اس نے انھیں ضرورت کی ہر چیز بخشی، فرمایا: «وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا» [ إبراہیم: ۳۴ ]”اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے۔“ پھر انھیں عقل و تمیز عطا فرما کر مہلت بخشی اور نافرمانیوں کے باوجود فوراً گرفت نہیں فرمائی۔ مومن و کافر سب کو نعمتوں سے نوازتا ہے۔ یہ سب اس اکیلے کی پیدا کردہ اور عطا کردہ نعمتیں ہیں۔
➍ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ: جب اس اکیلے نے رات دن کا یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں عطا فرمائی ہیں، کسی اور کا ان میں ذرہ برابر دخل نہیں، تو حق تو یہ تھا کہ اس کا شکر ادا کرتے، صرف اسی کو اپنا رب مانتے، اسی سے دعا کرتے اور اس کی آیات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر ایسے لوگ بہت کم نکلے۔ اکثر لوگ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے، بلکہ مالک کے ساتھ شریک بنا کر اس کی ناشکری اور غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر روز انھیں نیند اور بیداری کی صورت میں موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ حق یہ تھا کہ اس روزانہ کے موت وحیات کے مشاہدے کے بعد قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے تمام مخلوق کو زندہ کرنے کی قدرت پر ایمان رکھتے اور اس دن کے لیے تیاری کرتے، مگر انھوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کیا، بلکہ ناشکری کی اور قیامت کے انکار پر جمے رہے۔