(آیت 60) ➊ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ …: آخرت کی یاد دہانی کے ساتھ ہی توحید کی تاکید فرمائی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ آیت کے آخر میں جہنم کے ذکر کی صورت میں آخرت کا تذکرہ بھی فرما دیا۔
➋ ”دعا“ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ” رَبُّكُمْ“(تمھارا رب) کے لفظ کے ساتھ کروایا کہ ” ادْعُوْنِيْۤ “(مجھے پکارو) کا حکم تمھیں وہ دے رہا ہے جو ہر لمحے کسی کی شرکت کے بغیر تمھاری پرورش کر رہا ہے اور تمھاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔
➌ تمھارے رب نے فرمایا، تم مجھے پکارو، مجھ سے مانگو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا، میں تمھیں دوں گا۔ نہ مجھ سے بدگمان ہو، نہ کسی اور کو پکارتے یا اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کہ وہ تمھیں کچھ دے گا، یا تمھاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروا دے گا۔
➍ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں، فرمایا: «وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ»[ البقرۃ: ۱۸۶ ]”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کر لیتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کر لیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔ [ دیکھیے مسند أحمد: 18/3، ح: ۱۱۱۳۹، صحیح ] دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۸۶) کی تفسیر۔
➎ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ: یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے، یعنی ”یا علی مدد“ کہتا ہے، ” يَا شَيْخُ عَبْدَ الْقَادِرِ جِيْلَانِيْ شَيْئًا لِلّٰهِ “ کہتا ہے، بہاؤ الحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر، گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابلِ معافی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں، کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ» کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ]”پکارنا ہی بندگی ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ»[ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ البقرۃ: ۲۹۶۹، و قال الألباني صحیح ]
➏ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ …: اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے منکروں کے جھگڑے اور کج بحثی کا سبب بیان فرمایا تھا کہ وہ محض ان کے دلوں کا کبر اور جھوٹی بڑائی ہے جو انھیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب فرمایا کہ جو لوگ اس کبر میں مبتلا ہیں، میری آیات اور میرے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور مجھ سے دعا نہیں کرتے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔“(موضح)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَيُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَهَنَّمَ يُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِيْنَةِ الْخَبَالِ ][ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق، باب ما جاء في شدۃ الوعید للمتکبرین: ۲۴۹۲، و قال الألباني حسن ]”تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا، ہر طرف سے ذلت انھیں ڈھانک رہی ہو گی، پھر انھیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کر لے جایا جائے گا، جس کا نام ”بولس“ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہو گی، انھیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔“ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّهُ مَنْ لَّمْ يَسْأَلِ اللّٰهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ ][ ترمذي، الدعوات، باب منہ: ۳۳۷۳، و حسنہ الألباني ]”جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہو جاتا ہے۔“ کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے:
اَللّٰهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ
وَ تَرَي ابْنَ آدَمَ حِيْنَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ
”اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابنِ آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے غصے ہوتا ہے۔“