تفسير ابن كثير



جہالت اور طواف کعبہ ٭٭

مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کریں گے۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں۔

«اَلْیَوْمَ یَبْدَوُ بَعْضُہُ اَوْ کُلُّہُ» «وَمَا بَدَاَ مِنْہُ فَلَا اُحِلُّہُ»

آج اس کا تھوڑا سا حصہ یا کل حصہ ظاہر ہو جائے گا۔ اور جتنا بھی ظاہر ہو، میں اسے اس کے لیے جائز نہیں رکھتی۔

اس پر آیت «وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا» الخ، نازل ہوئی ہے۔ یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں، اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں۔ ہاں قریش جو اپنے آپ کو حمس کہتے تھے، اپنے کپڑوں میں ہی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں، وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا، اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے۔

پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد۔ عورت اپنے آگے کے عضو پر ذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گزرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں۔ یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی۔

اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے۔

اس لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ ان سے کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا۔ ایک تو برا کام کرتے ہو۔ دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو۔ یہ چوری اور سینہ زوری ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.