(آیت 44) ➊ فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ: معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد مومن اس تقریر کے دوران فرعون کی گفتگو سن کر اور قوم کا رویہ دیکھ کر ان کے ایمان لانے اور موسیٰ علیہ السلام کے متعلق قتل کا فیصلہ بدلنے سے مایوس ہو گیا تھا اور اپنے متعلق بھی اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ یہ لوگ مجھے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے اس نے آخری فقرہ اس شخص کے لہجے میں کہا جو اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار کھڑا ہو اور جسے اللہ کی مدد پر پورا یقین ہو۔
➋ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِيْۤ اِلَى اللّٰهِ: یہی وہ بات ہے جو اللہ کے خاص بندے اس وقت بھی کہتے ہیں جب تمام ظاہری اسباب ختم ہو جائیں، اس وقت بھی ان کا اللہ تعالیٰ پر بھروسا پوری طرح قائم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کے اعتماد کو کبھی نہیں توڑتا، بلکہ جس طرح چاہتا ہے انھیں بچا لیتا ہے۔ اللہ کے ان بندوں کے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مگر مفہوم ایک ہی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا، وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں گرائے جانے کے وقت ” حَسْبِيَ اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ“ کہا۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالٰی: «الذین استجابوا للّٰہ…» : ۴۵۶۴ ] جنگ احد کے بعد زخم خوردہ ہونے کے باوجود دشمنوں کی آمد کی خبر سن کر ایمان والوں نے یہ بات ان الفاظ میں کہی: «حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ» [آل عمران: ۱۷۳ ]”ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔“ اور اصحاب الاخدود والے لڑکے نے یہی بات ان الفاظ میں کہی تھی: [اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ ][ مسلم، الزھد، باب قصۃ أصحاب الأخدود…: ۳۰۰۵ ]”اے اللہ! مجھے ان سے کافی ہو جا جس طرح تو چاہے۔“ اور آلِ فرعون کے مومن نے کہا: «وَ اُفَوِّضُ اَمْرِيْۤ اِلَى اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ» ”میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔“
➌ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ: یعنی وہ تمھارے کفر و شرک اور ظلم و ستم پر اصرار کو اور میری بے چارگی اور اس کی خاطر استقامت کو خوب دیکھ رہا ہے، وہ خود ہی فیصلہ فرما دے گا۔