(آیت 41) ➊ وَ يٰقَوْمِ: یہاں زمخشری نے ایک سوال اور اس کا جواب ذکر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نے بار بار ” وَ يٰقَوْمِ “ کیوں کہا اور کیا وجہ ہے کہ اس نے تیسری دفعہ ”واؤ“ کے اضافے کے ساتھ ” وَ يٰقَوْمِ “ کہا، جب کہ دوسری دفعہ ”واؤ“ کے بغیر ” وَ يٰقَوْمِ “ کہا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بار بار” وَ يٰقَوْمِ “ کہنے کا مقصد ایک تو انھیں خبردار اور خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے، دوسرا اس بات کا اظہار ہے کہ تم میری قوم اور میرا خاندان ہو، اس لیے مجھ پر واجب ہے کہ میں تمھاری خیر خواہی کروں۔ چنانچہ وہ ان سے نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرتا ہے، ان کے بارے میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے، تاکہ وہ اس کی نیت پر شک نہ کریں، کیونکہ ان کی خوشی اس کی خوشی اور ان کا غم اس کا غم ہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو نصیحت کرتے ہوئے ہر جملے کی ابتدا ” يٰۤاَبَتِ “(اے میرے باپ!) سے کی۔ (دیکھیے مریم: ۴۱ تا ۴۵) اور تیسری دفعہ ”واؤ“ لانے اور دوسری دفعہ ”واؤ“ نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دوسری دفعہ ”يٰقَوْمِ “ والے جملے کے ساتھ اس سے پہلے جملے ہی کی وضاحت کی ہے، جب کہ تیسری دفعہ اس نے ایک نئی بات کی ہے۔
➋ مَا لِيْۤ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ …: قوم سے یہ سوال اظہار تعجب کے لیے ہے، یعنی یہ تمھاری کس قسم کی قوم پروری اور حق شناسی ہے کہ میں تو تمھیں اللہ کی توحید اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں، جس کا نتیجہ آگ سے نجات ہے اور تم مجھے اللہ کے ساتھ شرک اور رسول کی تکذیب پر قائم رہنے کے لیے اصرار کرتے ہوئے آگ کی دعوت دے رہے ہو۔
➌ قرآن مجید کے رسم الخط میں ” نَجَاةٌ “ کے الف کو واؤ کی شکل میں ”النَّجٰوةِ“ لکھا گیا ہے، اس کی وجہ اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یہ الف واؤ سے بدلا ہوا ہے، جیسا کہ ”صَلَاةٌ “ اور”زَكَاةٌ“ کو ”صَلٰوةٌ “ اور ”زَكٰوةٌ “ لکھا جاتا ہے۔