(آیت 34) ➊ وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ:”تمھارے پاس“ سے مراد تمھارے آبا و اجداد کے پاس ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بنی اسرائیل کو فرمایا: «وَ اِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ»[ البقرۃ: ۴۹ ]”اور جب ہم نے تمھیں فرعون کی قوم سے نجات دی۔“ ظاہر ہے اس سے مراد ان کے آبا و اجداد کو نجات دینا ہے۔ مرد مومن نے قبطیوں کو نصیحت کرتے ہوئے ان کے آبا و اجداد کے زمانے کا حال یاد دلایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تمھارے پاس یوسف(علیہ السلام) آئے، اس وقت بھی تمھارا حال یہی تھا۔
➋ بِالْبَيِّنٰتِ: اپنی رسالت کی واضح دلیلوں کے ساتھ۔ ”واضح دلیلوں“ میں یوسف علیہ السلام کا صدق و ایفائے عہد، ان کی امانت اور کمال درجے کی پاک دامنی، مصر کی عورتوں کی طرف سے ان کی عفت کی شہادت، قید میں ان کا صبر، قید کے ساتھیوں اور بادشاہ کے خواب کی تعبیر، سات سالہ خوفناک قحط کی یقینی اطلاع، اس کے لیے پہلے سات سالوں میں غلے کو محفوظ رکھنے اور بعد کے سات سالوں میں ان کی نہایت درست طریقے سے عادلانہ تقسیم کی تدبیر، بے مثال عدل و انصاف، موقع ملنے پر قید کے ساتھیوں کو ناقابل تردید دلائل کے ساتھ توحید کی دعوت، یعنی: «ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ»[ یوسف: ۳۹، ۴۰ ]”کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے؟ تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند ناموں کی، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اور تہمت کی صفائی تک قید سے نہ نکلنا اور دیگر بہت سی چیزیں شامل ہیں جن سے ان کا اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ رسول ہونا ثابت ہوتا ہے۔
➌ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ: یعنی اس سے پہلے یوسف علیہ السلام جب مصر میں آئے تو غلام تھے، جنھیں عزیز مصر نے بیٹا بنا لیا، پھر بہت سی آزمائشوں اور امتحانوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکومت کے ساتھ رسالت سے بھی سرفراز فرمایا، انھیں نبوت و رسالت کے ثبوت کے لیے کئی دلائل اور معجزے عطا فرمائے۔ تم ان پر ایمان لائے، مگر شک کے ساتھ۔ تمھارا ان پر ایمان ایسا ہی تھا جیسا کسی فقیر کا دولت مند پر یا کمزور کا طاقتور پر ہوتا ہے۔ اس میں یقین کی قوت نہ تھی، بلکہ تمھیں ان کی رسالت میں شک ہی رہا۔
➍ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا: ان کی زندگی میں تمھیں ان کی لائی ہوئی شریعت پر شک رہا، مگر جب وہ فوت ہوئے تو تم ان کی تعریف میں اس حد تک بڑھ گئے کہ تم نے کہا، اب ان کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہیں بھیجے گا، اب اس شان کا رسول کہاں آئے گا؟ یہ کہہ کر بعد میں رسولوں کے آنے ہی کا انکار کر دیا۔ یا ان کی بے قدری کی وہ انتہا کہ ان کی نبوت پر مسلسل شک کرتے رہے، یا ان کی تعریف کی یہ انتہا کہ ان کے بعد کسی کو رسول ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اس سے پہلے تم نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ یہ معاملہ کیا، دیکھنا! اب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی یہ معاملہ نہ کرنا کہ جیتے جی ان پر ایمان نہ لاؤ اور مرنے کے بعد انھیں ان کی حد سے بڑھا دو۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”حضرت یوسف(علیہ السلام) کی زندگی میں قائل نہ ہوئے، بعد ان کی موت کے جب سلطنت کا بند و بست بگڑ گیا تو کہنے لگے، یوسف کا قدم اس شہر پر کیا مبارک تھا، ایسا نبی کوئی نہ ہو گا۔ یا وہ انکار یا یہ اقرار، یہی یا وہ گوئی ہے۔“ مرد مومن کا مطلب یہ تھا کہ نعمت کی قدر زوال کے بعد ہوتی ہے، فی الحال تمھیں موسیٰ(علیہ السلام) کی قدر نہیں۔
➎ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ: ” مُرْتَابُ “”رَيْبٌ“ سے ” اِرْتَابَ يَرْتَابُ اِرْتِيَابًا “(افتعال) کا اسم فاعل ہے، شک کرنے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ گمراہی میں انھی لوگوں کو مبتلا کرتا ہے جن میں تین صفات پائی جاتی ہیں، ایک ” مُسْرِفٌ “ یعنی جو اپنی بداعمالی، اللہ کی نافرمانی اور کبر و غرور میں حد سے بڑھنے والے ہوں۔ دوسرے ” مُرْتَابُ “ یعنی اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کی کہی ہوئی باتوں میں شک کرنے والے ہوں۔